فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَا أَنتَ بِمَلُومٍ
پس (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !) آپ ان کی پروا نہ کیجئے۔ آپ پر کوئی الزام نہیں۔
فہم القرآن: (آیت54سے56) ربط کلام : نبی (ﷺ) کا کام کھلے الفاظ میں لوگوں کو سمجھانا اور ان کو برے انجام سے ڈرانا تھا۔ جس کا آپ (ﷺ) نے حق ادا کر رہے ہیں۔ نبی کریم (ﷺ) ” اللہ“ کی توحید سمجھانے اور لوگوں کی خیر خواہی کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ آپ لوگوں کو بار بار سمجھاتے کہ لوگو! اللہ کے ساتھ شرک کرنا چھوڑ دو اور صرف اسی کی عبادت کرو۔ آپ کے مخاطبین اس دعوت کو قبول کرنے کی بجائے آپ پر مختلف قسم کے الزامات لگاتے۔ آپ (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کو اذّیتیں دیتے تھے۔ اس صورت حال میں آپ کی طرف سے جن لوگوں پر حق کا ابلا غ ہوچکا تھا۔ ان کے بارے میں آپ کو ارشاد ہوا کہ آپ ان پر مزید وقت صرف کرنے کی بجائے ان سے اعراض کا رویہ اختیار فرمائیں۔ اس اعراض پر آپ پر کوئی ملامت نہیں ہوگی۔ ان کی بجائے آپ ایمانداروں اور ان لوگوں کو نصیحت فرماتے رہیں جو سلیم الفطرت ہیں اور حق بات کی طرف متوجہ ہونے والے ہیں۔ بلاشبہ آپ کی نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نہایت ہی فائدہ مند ہوتی ہے۔ انہیں پہلی نصیحت یہ فرمائیں کہ تمہارے رب نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا اس کا فرمان ہے صرف میری ہی عبادت کرنی چاہیے۔ یہی جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد ہے اور یہی انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا پہلا اور مرکزی مقصد ہے۔ (الانبیاء :25) ” ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔“ اکثر اہل علم نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے کہ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرے بلکہ اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز اور بے بس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے، دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ اس عہد کو نمازی پانچ وقت تشہد کی زبان میں دہراتا ہے۔ ” تمام قسم کی قولی، فعلی اور مالی عبادات اللہ کے لیے ہیں۔“ (رواہ البخاری : باب التَّشَہُّدِ فِی الآخِرَۃِ ) (الانعام : 162،163) ” کہہ دیجیے! یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا اسلام لانے والا ہوں۔“ اس تصور کے ساتھ قرآن مجید نے عبادت کا وسیع تر تخیل پیش کیا ہے کہ آدمی منڈی اور بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا نمونہ بن جائے، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفاداری کا پیکر ہوجائے، حکمران ہو یا کوئی ذمہ داری اٹھائے تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرض یہ کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور شعبہ رب کی غلامی اور سرافگندگی کے لیے وقف کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اسی کے لیے انسان کا ہر عمل وقف ہونا چاہیے۔ انبیائے عظام اپنی دعوت کا آغاز اسی سے کیا کرتے تھے۔ مسائل: 1۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی معبود نہیں اس لیے حکم ہے کہ صرف ایک ” اللہ“ کی عبادت کی جائے۔ 2۔ تمام لوگوں کو ادھر ادھر جانے کی بجائے اللہ کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے۔ 3۔ نبی آخرالزمان (ﷺ) کی نبوت کا مقصد لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے۔ 4۔ نبی (ﷺ) کو اسی طرح ہی جادوگر اور مجنون کہا گیا جس طرح پہلے انبیائے کرام کو کہا گیا تھا۔ 5۔ ضدی لوگوں پر زیادہ وقت صرف نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے مقابلے میں ایمان لانے والوں کو باربار نصیحت کرنی چاہیے۔ 6۔ ایمان لانے والوں کو نصیحت کرنے کا فائدہ ہوتا ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اس لیے سب کو اللہ کی خالص عبادت کرنی چاہیے۔ تفسیربالقرآن : انسان کی تخلیق کا مقصد اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا مرکزی نقطہ : (الانبیاء :25) (ھود :26) (الاعراف :65) (الاعراف :73) (الاعراف :85) (یوسف :40) (المائدۃ:72) (آل عمران :64)