لَّقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ
یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے کہا تھا کہ: ’’اللہ تو محتاج ہے [١٨٠] اور ہم غنی ہیں‘‘ جو کچھ انہوں نے کہا ہے اسے ہم لکھ رکھیں گے اور جو وہ انبیاء کو ناحق کرتے رہے (وہ بھی لکھ رکھا ہے) ہم (قیامت کے دن ان سے) کہیں گے کہ اب جلا دینے والے عذاب کا مزا چکھو
فہم القرآن : (آیت 181 سے 182) ربط کلام : مسلمانوں میں بخل کا ماحول پیدا کرنے کے لیے یہودیوں نے منافقوں کو یہ کہہ کر مالی تعاون سے منع کیا کہ مسلمانوں کا رب کنگال ہوگیا ہے اور ہم مال ودولت والے ہیں یہاں بخل کی مذمت اور اس گستاخی کی سزا سنائی گئی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) فنحاص یہودی عالم کے پاس بیت المدراس میں گئے۔ اسے کہنے لگے اللہ سے ڈرتے ہوئے مسلمان ہوجاؤ۔ کیونکہ تو جانتا ہے کہ آپ (ﷺ) سچے رسول ہیں اور یہ بات تورات وانجیل میں بھی لکھی ہوئی ہے۔ فنحاص نے جواب دیا کہ ہم اللہ کے محتاج نہیں۔ البتہ وہ ضرور ہمارا محتاج ہے اگر وہ ہمارا محتاج نہ ہوتا تو ہم سے قرضے کا مطالبہ نہ کرتا۔ حضرت ابوبکرصدیق (رض) غصے میں آئے اور اس کے منہ پر تھپڑ رسید کیا اور ساتھ یہ فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر ہمارا آپس کا معاہدہ نہ ہوتا تو اے اللہ کے دشمن ! میں تیری گردن اڑا دیتا۔ فنحاص یہ معاملہ نبی کریم (ﷺ) کے پاس لے گیا۔ آپ (ﷺ) نے ابوبکرصدیق (رض) سے وجہ دریافت کی تو انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ فنحاص نے جب اپنی بات کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی تصدیق میں یہ آیات نازل فرمائیں۔[ تفسیر ابن کثیر] انفاق فی سبیل اللہ کی تحریک کے خلاف منافقوں نے اپنے طریقہ کے مطابق کوشش اور زبان درازی کی۔ لیکن یہودیوں نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اب یہ نبی اور اس کا خدا لوگوں سے قرض کے نام پر چندہ مانگ رہے ہیں۔ در حقیقت مسلمانوں کا خدا فقیر اور کنگال ہوگیا ہے ہم ان کے مقابلے میں غنی اور دولت مند ہیں۔ جو خود لوگوں سے مانگتا ہے وہ ہمیں کہاں سے دوگنا تگنا کر کے واپس کرے گا؟[ الرحیق المختوم] اس ہرزہ سرائی اور یا وہ گوئی کے بارے میں سخت ناراضگی کے عالم میں فرمایا کہ جو کچھ یہ اپنی زبانوں سے نکال رہے ہیں۔ ہم نے اس کا ایک ایک حرف لکھ لیا ہے جس طرح ان کا انبیاء کو ناحق قتل کرنا ریکارڈ ہوچکا ہے۔ گویا کہ جس طرح انہوں نے انبیاء کو قتل کیا اس طرح ہی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی سزا یہ ہے کہ ہم قیامت کے دن انہیں کہیں گے کہ جس مال کو تم بچا بچا کر رکھتے تھے اب اسی مال کے ساتھ جہنم کا جلا دینے والا عذاب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چکھتے رہو۔ جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا اس کی سزا پائیں گے اللہ تعالیٰ کی طرف سے زیادتی نہیں ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ذرہ برابر بھی زیادتی نہیں کرتا۔ بے شک انسان کتنا باغی‘ کافر اور متکبر کیوں نہ ہو اسے اتنی ہی سزا ملے گی جتنا اس نے جرم کیا ہوگا۔ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) فِیْمَا رَوٰی عَنِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَنَّہٗ قَالَ یَاعِبَادِیْ إِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہٗ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلَاتَظَالَمُوْا۔۔)[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندو! یقینًا میں نے اپنے آپ پر ظلم کرنا حرام کرلیا ہے اور میں اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیتاہوں۔ پس تم آپس میں ظلم نہ کیا کرو۔“ مسائل : 1۔ یہودی اللہ تعالیٰ کو فقیر اور اپنے آپ کو مال دار کہتے ہیں۔ 2۔ ہر زہ سرائی اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے کی وجہ سے انہیں جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ 3۔ لوگوں کو قیامت کے دن وہی کچھ ملے گا جو آگے بھیجیں گے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ غنی ہے فقیر نہیں : 1۔ اللہ کے ہاتھ فراخ ہیں جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ (المائدۃ:64) 2۔ زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے۔ (المنافقون :7) 3۔ زمین و آسمان کی کنجیوں کا مالک اللہ ہے۔ (الزمر :63) 4۔ اللہ تعالیٰ رزق بڑھاتا اور کم کرتا ہے۔ (العنکبوت :62) اللہ تعالیٰ ظلم پسند نہیں کرتا : 1۔ اللہ تعالیٰ بلاوجہ عذاب دینا پسند نہیں کرتا۔ (النساء :147) 2۔ اللہ تعالیٰ ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ (النساء :40) 3۔ اللہ تعالیٰ نبی بھیجنے سے پہلے عذاب نہیں دیتا۔ (بنی اسرائیل :15) 4۔ اللہ تعالیٰ قیامت کو بھی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (قٓ :29)