هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !) کیا آپ کے پاس [١٨] ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات [١٩] بھی پہنچی؟
فہم القرآن: (آیت24سے30) ربط کلام : آیت 21ارشاد میں ہوا کہ تمہارے وجود میں بھی اللہ نے اپنی قدرت کی نشانیاں رکھی ہیں۔ اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کے مظہر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ مکرمہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہنیں بڑھاپے میں بیٹے عطا فرمائے جن کا مختصر واقعہ یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ تمام مؤرخین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو سال تھی۔ ملائکہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں سلام کیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں سلام کا جواب دیا اور سوچا کہ اجنبی لوگ ہیں۔ اس کے باوجود اٹھے اور ایک موٹا تازہ بھنا ہوابچھڑا کھانے کے لیے ان کے سامنے پیش کیا۔ انسانوں کی شکل میں آنے والے ملائکہ نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ اٹھایا۔ تو ابراہیم (علیہ السلام) پریشان ہوئے لیکن فرشتوں نے کہا کہ آپ کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم بری خبر دینے کی بجائے آپ کو دانش مند بیٹے کی خوشخبری سنانے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں میری کتاب سیرت ابراہیم) ” جب دیکھا ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتے تو انہیں اجنبی جانا اور ان سے خوف محسوس کیا انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔“ (ہود :70) بشارت سن کر حضرت سارہ مسکرائیں : ” اور اس کی بیوی جو اس کے پاس کھڑی تھی یہ سن کر ہنس پڑی۔ ہم نے اس کو اسحاق اور اس کے بعد یعقوب کی خوشخبری سنائی۔ اس نے کہا اف! کیا اب میرے ہاں بچہ ہوگا۔ حالانکہ میں نہایت بوڑھی ہوچکی ہوں اور میرا خاوند بھی بوڑھا ہوچکا ہے یہ عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا۔ کیا اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو۔ اے ابراہیم کے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ یقیناً اللہ نہایت تعریف والا اور بلند شان کا مالک ہے۔“ (ھود : 71، 72،73) ” اے نبی! آپ ان کو ابراہیم کے معزز مہمانوں کا واقعہ سنائیں۔ جب وہ ابراہیم کے پاس آئے اور کہا تم پر سلام ہو۔ ابراہیم نے کہا ہمیں تو آپ سے ڈر لگتا ہے فرشتے کہنے لگے۔ آپ ڈریں نہیں! ہم آپ کو صاحب علم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ ابراہیم فرمانے لگے۔ کیا آپ اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دے رہے ہیں۔ یہ کیسی بشارت ہے۔“ (الحجر : 51تا54) ” فرشتے کہنے لگے ہم آپ کو ٹھیک خوشخبری دے رہے ہیں۔ آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ابراہیم نے کہا۔ اپنے رب کی رحمت سے تو گمراہ لوگ ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔“ (الحجر : 55،56) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اظہار تفصیل کے لیے سوال کیا تھا ورنہ وہ تو اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں تھے۔ کیونکہ رب کی رحمت سے مایوس تو صرف گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ نبی تو اسباب کی ناپیدگی کے باوجود اپنے رب کی رحمت پر بھرپور بھروسہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اس واقعہ میں بتانا یہ مقصود ہے۔ اے اہل مکہ یہ حقیقت جان لو تم فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے ہو کہ فرشتے آکر اس نبی کی تائید کریں۔ تب ہم غور کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ یاد رکھو فرشتے یا تو کسی کے لیے رحمت لے کر آتے ہیں یا زحمت! تم سوچ لو تم کس چیز کے مستحق ہو؟ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ بغیر اسباب کے سب کچھ کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں اولاد کے ظاہری اسباب نہیں تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹے عطا فرمائے۔ اسی طرح حالات نامساعد ہی کیوں نہ ہوں اللہ اپنے نبی (ﷺ) اور دین کو ضرور کامیاب فرمائے گا۔ کیونکہ ” اللہ“ اسباب کا پابند نہیں۔ اسباب اس کے حکم کے پابند ہیں۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) : مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو آپ کی عمر سو سال اور آپ کی زوجہ حضرت سارہ کی عمر نوے سال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) حضرت اسحاق کی خوشخبری دینے کے ساتھ پوتے یعقوب کی خوشخبری بھی عطا فرمائی۔ (ھود : 69،70) مسائل: 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس معزز فرشتے انسانوں کی شکل میں حاضر ہوئے۔ 2۔ ملائکہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سلام عرض کیا۔ جواب میں ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی انہیں سلام کہا۔ 3۔ ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں کو پہچان نہ سکے۔ 4۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے مہمانوں سے خوف زدہ ہوگئے۔ 5۔ مہمانوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اطمینان دلانے کے بعد صاحب علم بیٹے کی بشارت دی۔ 6۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی حضرت سارہ خوشخبری سن کر تعجب کے مارے ہنس پڑی اور کہا ایک بانجھ بڑھیا کے ہاں کس طرح بچہ پیدا ہوگا۔ 7۔ ملائکہ نے کہا آپ کا رب آپ کو ضرور بیٹاعطا فرمائے گا۔ کیونکہ وہ حکمت والا اور جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: انبیائے کرام (علیہ السلام) غیب نہیں جانتے تھے : 1۔ حضرت نوح نے فرمایا میرے پاس خزانے نہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (ہود :31) 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ کو نہ پہچان سکے۔ (ہود : 70،69) 3۔ حضرت لوط ملائکہ کو نہ پہچان سکے۔ (ہود : 77،78) 4۔ آپ (ﷺ) فرما دیں میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتاہوں۔ (الانعام :50) 5۔ فرمادیجیے کہ زمین و آسمان کے غیب کو ” اللہ“ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل :65) 6۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف :188) 7۔ ” اللہ“ کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام :59)