وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ
اور آسمان [١٥] میں تمہارا رزق ہے اور وہ کچھ بھی جس کا تم سے وعدہ [١٦] کیا جاتا ہے
فہم القرآن: (آیت22سے23) ربط کلام : متقین کی آیت 19میں یہ صفت بیان ہے کہ وہ اپنے مال سے محتاج لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اب مال کی حقیقت بتلائی ہے کہ مال پر کسی کا حقیقی اور دائمی اختیار نہیں، اس کا کنٹرول آسمان میں ہے جسے دینے کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ” اللہ“ نے زمین و آسمان کی قسم اٹھا کر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رزق کا کنٹرول آسمان میں رکھا ہے اور رزق دینے کا اس کا سچا وعدہ ہے۔ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور بات سچ پر مبنی ہے یہ اس طرح سچ ہے جس طرح تم بولتے ہو۔ رزق سے مراد صرف کھانے پینے کی چیزیں نہیں بلکہ اس سے مراد انسان کی وہ تمام ضروریات ہیں جس کی اسے اپنی پوری زندگی میں حاجت ہوتی ہے۔ اس کا کنٹرول آسمان میں رکھا گیا ہے اس ارشاد کے دو مفہوم ہیں۔ 1۔ رزق اور ہر چیز کا خالق اور مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ جو آسمانوں کے اوپر عرش معلی پر اپنی شان کے مطابق جلوہ افروز ہے وہی لوگوں کا رزق تنگ اور کشادہ کرتا ہے۔ 2۔ انسان کی بیشتر ضروریات کا تعلق پانی سے ہے اور پانی کا دارومدار بارش کے ساتھ ہے۔ بارش کے نزول کا حکم بھی آسمان سے ہوتا ہے۔ بارش بلندیوں سے زمین پر برستی ہے۔ اس لیے ہر دور میں انسان کی زبان پر یہی بات رہی ہے اور رہے گی کہ بارش آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی قسم اٹھا کر لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ تمہارا رزق آسمانوں میں ہے اور اس نے تمہیں رزق دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے میں سچا ہے۔ اسی سورۃ کی آیت 58میں ارشاد کہ یقیناً اللہ ہی رزق دینے والا ہے اور وہ بڑا طاقتور اور مضبوط ہے۔ ارشاد فرمایا کہ تمہیں رزق دینے والی بات اتنی ہی سچی اور واضح ہے جس طرح تمہارا ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنا۔ 3۔ گو سائنسدان ابھی اس نقطہ پر نہیں پہنچ سکے کہ بارش برسنے کا آسمان سے کیا تعلق ہے ممکن ہے مستقبل قریب یا بعید میں سائنس اس نقطہ پر پہنچ جائے کہ بارش کا تعلق آسمان کے ساتھ ہے جس وجہ سے اسے آسمان کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔ ( اللہ اعلم) ” زمین میں کوئی چلنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی کے ذمّہ ہے اور وہ اس کی قرار گاہ اور اس کے دفن کیے جانے کی جگہ کو جانتا ہے سب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے۔“ (ہود :6) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ۔۔) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول (ﷺ) نے فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے جو خون کی صورت میں جم جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم دیتے ہیں پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔۔۔“ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا) (رواہ الترمذی : کتاب الزہد، باب فِی التَّوَکُّلِ عَلَی اللَّہِ۔ قال الالبانی ہذا حدیث صحیح) ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے۔ تو تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹوں کے ساتھ لوٹتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کا کنٹرول آسمان میں رکھا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ رزاق ہے اور اس نے لوگوں کو رزق مہیا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ اس کی ذات اور بات سچ ہے۔ تفسیر بالقرآن: ” اللہ“ ہی رزق دینے والا ہے : 1۔ ” اللہ“ ہی رازق ہے۔ (الذاریات :58) 2۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (ا لسباء :39) 3۔ ” اللہ“ لوگوں سے رزق طلب نہیں مانگتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ :132) 4۔ ” اللہ“ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (البقرۃ:212) 5۔ بے شک اللہ بغیر حساب کے جس کو چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے۔ (آل عمران :37) 6۔ ہم تم سے رزق نہیں مانگتے بلکہ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں۔ (طٰہٰ :132)