إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ
کہ جس بات کا تم سے وعدہ کیا جاتا [٣] ہے وہ سچا ہے۔
فہم القرآن: (آیت5سے6) ربط کلام : پانی کا انحصار بارش پر ہے اور اس کے ذریعے زمین سے بیج اگتے ہیں۔ جس طرح زمین سے بیج اگتے ہیں اسی طرح لوگوں کو قیامت کے دن زندہ کرکے اٹھایاجائے گا۔ یہ ” اللہ“ کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہوگا۔ پہلی آیات میں بارش کے حوالے سے اشارتاً قیامت کا ذکر ہوا اور اب بار بار تاکید کے الفاظ لا کر فرمایا ہے کہ جس قیامت کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے وہ سچ ہے کہ قیامت ہر صورت برپا ہوکررہے گی۔ یہ بات سورۃ ق کی آیات 9 تا کی تفسیر میں ذکر ہوئی ہے کہ جس ذات نے زمین و آسمانوں اور ہر چیز کو پیدا کیا ہے اس کے لیے مخلوق کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل نہیں بلکہ ایسا کرنا اس کے لیے آسان تر ہے اس حقیقت کے باوجود جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں انہیں مختلف انداز اور دلائل کے ساتھ سمجھایا ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہوگی۔ اس کے باوجود جو ماننے کے لیے تیار نہیں انہیں ان الفاظ میں چیلنج دیا ہے۔ ” فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا کوئی ایسی مخلوق جو تمھارے خیالات میں بڑی ہے عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں وہی جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا ہے۔“ ( بنی اسرائیل :50) (الانبیاء :104) ” وہ دن جب آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے لکھے ہوئے اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ وعدہ ہمارے ذمےہے اور یہ کام ہمیں ہر حال میں کرنا ہے۔“ مسائل: 1۔ قیامت کا وعدہ سچاہے جو ہر صورت پورا ہو کررہے گا۔ تفسیربالقرآن قیامت کے قائم ہونے کے دلائل : 1۔ قیامت قریب ہے۔ (الحج :1) 2۔ تمہارے لیے قیامت کا دن مقرر ہے۔ اس میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوگی۔ ( سبا :30) 3۔ قیامت اچانک آجائے گی۔ ( یوسف :107) 4۔ قیامت پل بھر میں واقع ہوجائے گی۔ ( النحل :77) 5۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ( الکہف :21)