وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو کچھ اس کے دل میں وسوسہ گزرتا [١٨] ہے، ہم تو اسے بھی جانتے ہیں اور اس کے گلے کی رگ سے بھی زیادہ اسکے قریب [١٩] ہیں۔
فہم القرآن: (آیت16سے18) ربط کلام : قیامت کے انکار کے پیچھے منکرین قیامت کا ایک تصور یہ بھی ہے کہ اس طرح ہمارے گناہ چھپ جائیں گے انہیں یہ بات باور کروائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ انسان کے دل میں خیالات ابھرتے اور جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ انسان کی شہ رگ سے بھی اس کے زیادہ قریب ہے۔ انسان جو کام کرتا ہے اس کے دائیں بائیں ساتھ رہنے والے فرشتے اس کی ہر بات اور کام کو ضبط تحریر میں لائے جاتے ہیں۔ انسان کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلتا مگر اسے لکھنے والا ہر وقت موجود ہوتا ہے جو اسے رات دن تحریر کرتارہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خالق، نگران اور انسان کی شہ رگ سے قریب تر ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے لیے تین مرتبہ جمع کی ضمیر استعمال فرمائی ہے۔ جمع کی ضمیر میں ایک رعب اور دبدبہ پایا جاتا ہے جس میں انسان کو بار بار احساس دلایا گیا ہے کہ ہم نے تجھے پیدا کیا ہے، ہم تیرے دل کے احساسات اور جذبات کو جانتے ہیں اور ہم تیری شہ رگ سے بھی زیادہ تیرے قریب ہیں اور جو کچھ بھی تو کرتا ہے ہمارے ملائکہ اسے لکھتے جارہے ہیں۔ جسے قیامت کے دن مَن وعن تیرے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ انسان کو اس بات کا جتنا احساس اور خیال رہے گا اتنا ہی انسان اپنے رب کے تابع فرمان رہے گا۔ یہ خیال اور عقیدہ جتنا کمزور ہوگا اتنا ہی انسان اپنے رب کا نافرمان اور باغی ہوتا جائے گا۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے انسان کے قریب ہونے کا تعلق ہے وہ اپنے علم، اختیار اور اقتدار کے اعتبار سے انسان کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہے لیکن اپنی ذات کے اعتبار سے وہ عرش معلی پر جلوہ افروز ہے جس طرح اس کی ذات کو لائق ہے۔ (البقرۃ: 29، طہٰ:5) (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَتَعَاقَبُوْنَ فِیکُمْ مَلَآئِکَۃٌ باللَّیْلِ وَمَلَآئِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَیَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِیْنَ بَاتُوْا فِیکُمْ فَیسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَیْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَیَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ وَاٰتَیْنٰھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر) ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : تمہارے پاس رات اور دن کو آگے پیچھے فرشتے آتے ہیں۔ وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ رات والے فرشتے چلے جاتے ہیں تو ان سے پروردگار سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا۔ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ہم ان سے واپس آئے تو وہ نماز ہی کی حالت میں تھے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ آدم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ تو وہی آدم (علیہ السلام) ہے۔ جس نے اپنی اولاد کو جنت سے نکلوا دیا تھا۔ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا : تو وہی موسیٰ (علیہ السلام) ہے جسے اللہ نے اپنی رسالت اور کلام کے لیے چن لیا۔ پھر مجھے اس معاملے میں ملامت کر رہا ہے جو میری پیدائش سے پہلے لکھا جا چکا تھا۔۔“ (صحیح بخاری : کتاب بدء الوحی) کا معنٰی ہے گردن کی رگ۔ مسائل: 1۔ ” اللہ“ ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور وہی اس کے دل کے خیالات کو جانتا ہے اور وہ اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے مقرر رکھے ہیں جن کا نام کراماً کاتبین ہے۔ 3۔ کراماً کاتبین انسان کی ہر بات اور کام کو لکھتے جاتے ہیں۔ 4۔ ملائکہ انسان کی ہر وقت نگرانی اور حفاظت کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے : 1۔ انسان جہاں کہیں بھی ہو اس کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہے۔ (الحدید : 4۔ التوبہ :40) 2۔ اللہ تعالیٰ انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ (ق : 16، الواقعہ :85) 3۔ انسان جدھر بھی رخ کرے اللہ تعالیٰ کی توجہ اس کی طرف ہوتی ہے۔ (البقرۃ:115) 4۔ آدمی تین ہوں تو چوتھا ” اللہ“ ہوتا ہے پانچ ہوں تو چھٹا ” اللہ“ ہوتا ہے اس سے زیادہ ہوں یا کم وہ ہر وقت آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔ (المجادلہ :7)