قُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
آپ ان (بدویوں) سے کہئے : کیا تم اللہ کو اپنی دینداری جتلاتے [٢٦] ہو حالانکہ اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
فہم القرآن: (آیت16سے18) ربط کلام : رسول محترم (ﷺ) پر جو لوگ اپنے اسلام کا احسان جتلاتے تھے انہیں انتباہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔ جو لوگ اپنے ایمان لانے کا نبی (ﷺ) اور مسلمانوں پر احسان سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ فرمان جاری کیا کہ اے رسول (ﷺ) ! ان لوگوں سے بتلا دیں کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کو اپنا دین بتلاتے اور جتلاتے ہو۔ حالانکہ وہ تمہارے دلوں کا حال جانتا ہے کیونکہ زمین و آسمانوں میں جو چیز موجود ہے وہ اس کے علم میں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ جو لوگ اپنے اسلام لانے کا آپ پر احسان جتلاتے ہیں انہیں کھلے الفاظ میں فرمائیں کہ مجھ پر اپنے ا سلام کا احسان نہ جتلاؤ۔ یہ تو اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی طرف راہنمائی کی۔ ہمیشہ یاد رکھو! کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کے غیب کو جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو انہیں دیکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دور کے کچھ دیہاتیوں کے ایمان کی نفی کی اور انہیں سمجھایا کہ یہ تم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہاری اسلام کی طرف راہنمائی کی ہے۔ اسلام اور ایمان کا بنیادی فرق یہ ہے کہ ایمان کا تعلق انسان کی زبان اور دل کے ساتھ ہے اور اسلام کا زیادہ تعلق نیک اعمال کے ساتھ ہے، ایمان اور اسلام آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ ایمان اخلاص کا تقاضا کرتا ہے اور اسلام نیک عمل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اخلاص کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا یہ عقیدہ ہو کہ میرا کوئی عمل بھی اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ (عَنْ عُمَرَابْنِ الْخَطَّاب (رض) قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہ (ﷺ) ذَاتَ یَوْمٍ اِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیْدُ بَیَاض الثِّیَابِ شَدِیْدُ سَوَاد الشَّعْرِ لاَ یُرٰی عَلَیْہِ أَثَرُالسَّفَرِ وَلَا یَعْرِفُہٗ مِنَّا أَحَدٌ حَتّٰی جَلَسَ إِلَی النَّبِیّ (ﷺ) فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلٰی فَخِذَیْہِ وَقَالَ یَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِسْلَامِ قَالَ اَلْاِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ وَتُقِیْمَ الصَّلٰوۃَ و تُؤْتِیَ الزَّکوٰۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا قَالَ صَدَقْتَ فَعَجِبْنَا لَہٗ یَسأَلُہٗ وَیُصَدِّقُہٗ قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنِ الْاِیْمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ باللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْأَخِرِ وَ تُؤْمِنَ بالْقَدْْرِخَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَأَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ قَالَ فَأَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَۃِ قَالَ مَاالْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ قَالَ فَأَخْبِرْنِیْ عَنْ اَمَارَاتِھَا قَالَ أَنْ تَلِدَالْاَمَۃُ رَبَّتَھَا وَاَنْ تَرَی الْحُفَا ۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَاء الشَّاءِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ قَالَ ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِیاًّ ثُمَّ قَالَ لِیْ یَا عُمَرُ اَتَدْرِیْ مَنِ السَّائِلُ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہُ جِبْرئِیْلُ اَتٰکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَرَوَاہُ اَبُوھُرَیْرَۃَ مَعَ اخْتِلَافٍ وَفِیْہِ وَإِذَا رَأَیْتَ الْحُفَا ۃَ الْعُرَاۃَ الصُّمَّ الْبُکْمَ مُلُوکَ الْاَرْضِ فِی خَمْسٍ لَا یَعْلَمُھُنَّ اِلَّا اللّٰہُ ثُمَّ قَرَأَ İاِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَافِی الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَاتَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌĬ) (رواہ مسلم : باب معرفۃ الایمان والاسلام والقدر والاعلامۃ الساعۃ) ” حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول محترم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر تھے۔ ہمارے پاس ایک ایسا شخص آیا کہ جس کا لباس بالکل سفید تھا اور بال نہایت ہی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کے اثرات دکھائی نہیں دیتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی اسے نہ پہچان سکا۔ وہ آتے ہی نبی کریم (ﷺ) کے گھٹنوں کے ساتھ گھٹنے ملاکر اور اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں پر رکھتے ہوئے آپ سے استفسار کرنے لگا۔ اے محمد (ﷺ) ! مجھے اسلام کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ ارشاد ہوا اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کا رسول ہے، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت ہو تو اس کا حج ادا کرنا۔ اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا ہم نے اس بات پر تعجب کیا کہ یہ سوال بھی خود کرتا ہے اور اس کی تائید بھی۔ پھر اس نے کہا مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن، اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے وہ آپ (ﷺ) کی تائید کرنے کے بعد احسان کے بارے میں سوال کرنے لگا۔ ارشاد ہوا تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر تو اسے دیکھ نہیں پاتا تو وہ تجھے یقیناً دیکھ رہا ہے۔ آخری سوال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے قیامت کے بارے میں بتلایا جائے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا : جس سے قیامت کے متعلق سوال کیا جارہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ پھر اس نے کہا مجھے اس کی نشانیوں سے ہی آگاہ فرمائیں۔ آپ نے فرمایا : جب لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی، تم دیکھو گے ننگے پاؤں برہنہ جسم نہایت غریب بکریوں کے چرواہے بڑے بڑے محلات بنانے پر فخر کریں گے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں جب وہ چلے گئے تو میں کچھ دیر ٹھہرا رہا۔ آپ (ﷺ) نے مجھے سے پوچھا اے عمر! کیا آپ جانتے ہیں یہ سوال کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا یہ جبریل امین تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھلانے کے لیے آئے تھے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ رسمی اسلام سے بے پرواہ ہے۔ 2۔ حقیقی اسلام کا تقاضا ہے کہ آدمی اپنے ایمان اور عمل کا کسی پر احسان نہ جتلائے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ جس کی ایمان کی طرف راہنمائی کرے اس پر اس کا بڑا احسان ہوتا ہے۔ 4۔ بلاشبہ ” اللہ“ زمین و آسمانوں کے غیب جانتا ہے اور لوگوں کے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ایمان اور عمل : 1۔ صالح عمل کرنے والے مومنوں کے لیے خوشخبری ہے اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ (الکھف :2) 2۔ جو بھی مومن صالح عمل کرے گا اس کی محنت کو رائیگاں نہیں کیا جائے گا۔ (الانبیاء :94) 3۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے بخشش اور رزق کریم ہے۔ (الحج :50) 4۔ عمل صالح کرنے والے مومنوں کے گناہوں کو ” اللہ“ ختم کردیں گے۔ (العنکبوت :7) 5۔ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لیے نعمتوں والی جنت ہے۔ (لقمان :8)