يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری ذاتیں اور قبیلے اس لئے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو (ورنہ) اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل عزت وہی ہے جو تم میں سے زیادہ [٢٢] پرہیزگار ہو۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : اخلاقی اور لسانی عیوب سے بچنے کے لیے یہ حقیقت بتلائی اور اس کے ذریعے احساس دلایا ہے کہ تم بنیادی طور پر ایک ہی ماں، باپ کی اولاد ہو لہٰذا تمہیں بدگمانی، ایک دوسرے کا تجسس اور غیبت کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اے لوگو! تمہارے رب کا فرمان ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور پھر قبیلے بنائے تاکہ تمہیں ایک دوسرے کو جاننے اور پہچاننے میں آسانی ہو۔ تمہارے خاندان اور قبائل بنانے کا یہ مقصد نہیں کہ تم خاندان اور قبائل کی بنیاد پر ایک دوسرے پر فخر کرو۔ یقیناً ” اللہ“ کے نزدیک تم میں سے وہی عزت والا ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے۔ ” شُعُوْبً“ شعبٌ کی جمع ہے۔ شعوب کا لفظ وسیع تر معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ عمرانیات کے ماہرین نے اس کے کئی معانی بیان کیے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔1۔ لوگوں کا بڑا گروہ جو ایک باپ کی طرف منسوب ہو۔ 2۔ لوگوں کی ایک بڑی جماعت جو ایک سوشل نظام کے ماتحت ہو۔ 3۔ وہ جماعت جس کے افراد کی بودوباش اور زبان ایک ہو۔ 4۔ قبیلے کی جمع قبائل ہے جس کا معنٰی ایک باپ یا دادا کی طرف منسوب لوگ ہیں۔ خاندان اور قبائل بنانے کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں ایک دوسرے کو پہچاننے میں آسانی ہو۔ قبیلہ سے مراد ایک برادری بھی ہوسکتی ہے جس طرح پاکستان میں مختلف ناموں پر برادریاں ہیں اور پھر بڑی برادریوں کے درمیان بھی برادریاں ہوتی ہے۔ پھر ان میں خاندان ہیں۔ عام طور پر ایک دادا کی اولاد کو ایک خاندان سمجھا جاتا ہے۔ (یَآ أَیُّھَا النَّاسُ !أَلَآ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلٰی أَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بالتَّقْوٰی) (مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث رجل من أصحاب النبی (ﷺ) ” اے لوگو! خبردار یقیناً تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت حاصل نہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَمَنْ قَاتَل تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبِیَّۃٍ اَوْیَدْعُوْ لِعَصَبِیَّۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبِیَّۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ وَمَنْ خَرَجَ عَلٰی اُمَّتِیْ بِسَیْفِہٖ یَضْرِبُ بَرَّھَا وَ فَاجِرَھَا وَلَا یَتَحَاشَ مِنْ مُؤْمِنِھَا وَلَا یَفِیْ لِذِیْ عَھْدٍ عَھْدَہٗ فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُ) (رواہ مسلم : باب الأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَۃِ عِنْدَ ظُہُورِ الْفِتَنِ وَتَحْذِیر الدُّعَاۃِ إِلَی الْکُفْرِ ) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ فرماتے سنا، جو اطاعت اور جماعت سے علیحدہ ہوا اور وہ اسی حالت میں فوت ہوا، تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جو شخص نامعلوم جھنڈے کے نیچے لڑتا رہا، عصبیت کی خاطر غیرت میں آیا اور عصبیت کی دعوت دیتا رہا، یا عصبیت کی وجہ سے مدد کرتا ہوا قتل ہوا، اس کا قتل، جہالت پر ہوگا۔ جو شخص میری امت کے خلاف تلوار سونت کر نیک و بد سب کو تہ تیغ کرتا چلا گیا اور کسی مومن کی اس نے پروا نہ کی اور نہ ہی کسی عہد والے کے عہد کا پاس کیا، وہ مجھ سے نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مرد اور عورت سے تخلیق فرمایا۔ 3۔ کنبے اور قبیلے بنانے کا مقصد ایک دوسرے کی پہچان ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت کا معیار تقویٰ ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن: تقویٰ کی اہمیت وفضیلت : 1۔ مصیبتوں میں صبر اختیار کرنا اور سچ بولنا تقویٰ ہے۔ (البقرۃ:177) 2۔ حلال روزی کھانا، اللہ پر ایمان لانا اور اس سے ڈرنا تقویٰ ہے۔ (المائدۃ:88) 3۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دینا اور اس پر قائم رہنا تقویٰ ہے۔ (طٰہٰ:132) 4۔ شعائر اللہ کا احترام کرنا تقویٰ ہے۔ (الحج :132) 5۔ حج کے سفر میں زاد راہ لینا تقویٰ ہے۔ (البقرۃ:197) 6۔ متقی کی خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : 4تا5) 7۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم :34) 8۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو قیامت کے دن بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : 61تا64)