يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! بہت گمان کرنے سے پرہیز [١٩] کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اور کسی کی عیب [٢٠] جوئی نہ کرو، نہ ہی تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت [٢١] کرے، کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم تو خود اس کام کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرتے ہو۔ اللہ ہر وقت توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : عیب جوئی کا آغاز بد ظنی سے ہوتا ہے۔ اسے ختم کرنے کے لیے حکم دیا ہے کہ ہر قسم کی بدگمانی سے اجتناب کرو۔ ایمانداروں کو تیسرا خطاب اس میں تین کاموں سے منع کیا گیا ہے۔ اے ایماندارو! بدگمانیوں سے بچو کیونکہ اکثر بد گمانیاں بدظنی پر مبنی ہوتی ہیں اور کوئی مسلمان کسی مسلمان کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں کوئی شخص یہ بات پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ حالانکہ اس سے تم ہر صورت نفرت کرتے ہو۔ اللہ سے ڈرو! یقیناً اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ پہلے کسی کے بارے میں بدظنی پیدا ہوتی ہے اور پھر بدظنی کے بعد عیب جوئی کے لیے تجسس شروع ہوتا ہے جس کا نتیجہ غیبت کی صورت میں نکلتا ہے۔ بدظنی، تجسس اور غیبت آپس میں لازم و ملزوم ہیں اس لیے بیک وقت تینوں کاموں سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے بچنے والے کو خوشخبری دی گئی ہے کہ جو غیبت سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے گا کیونکہ وہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ ظن : قرآن مجید نے ظن کا لفظ یقین اور گمان کرنے کے معانی میں بھی استعمال کیا ہے۔ (اس کا تعین موقعہ کے مطابق کیا جاتا ہے۔) ظن کا معنٰی یقین کرنا (الحاقہ :20) ظن کا معنٰی کسی بات یا کام کے بارے میں تذبذب کا شکار ہونا۔ (یوسف :42) ظن کا معنٰی کسی کے بارے میں بدگمانی کرنا۔ (الحجرات :12) یہاں ظن سے مراد بدگمانی ہے جس سے قرآن مجید اور نبی (ﷺ) نے مسلمانوں کو منع کیا ہے اور اس کے مقابلے میں آپس میں اچھا گمان یعنی حسن ظن رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَکُونُوا عِبَاد اللَّہِ إِخْوَانًا) (رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ) حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا تم بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو، نہ آپس میں دشمنی رکھو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔“ تجسّس : تجسّس سے مراد ایک دوسرے کے نقائص اور عیب تلاش کرنا ہے۔ دوسرے کے عیب تلاش کرنے سے اس کے بارے میں دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو باہمی نفرت سے بچانے کے لیے حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کا تجسس نہ کیا کرو لیکن تجسس کی بعض صورتیں ایسی ہیں جو جائز ہی نہیں بلکہ بعض حالات میں ذمہ دار لوگوں پر تجسس کرنا فرض ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر معاشرے میں گناہوں پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ حکومت کا جرائم پیشہ لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور کسی ادارے کے سربراہ کا ادارے کے حالات سے آگاہ ہونا ضروری ہے تاکہ اصلاح احوال کے لیے بروقت قدم اٹھایا جاسکے۔ مسائل: 1۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی سے بچنا چاہیے۔ 2۔ اکثر بدگمانیاں انسان کو گناہ اور دوسرے کے ساتھ زیادتی کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ 3۔ مسلمانوں کو خوامخواہ ایک دوسرے کے معاملات کا تجسس نہیں کرنا چاہیے۔ 4۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ 5۔ مسلمان بھائی کی غیبت کرنا اپنے فوت شدہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ 6۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔