وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَٰذِهِ وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنكُمْ وَلِتَكُونَ آيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا
اس نے تم سے (اور بھی) بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا [٢٨] ہے جنہیں تم حاصل کرو گے۔ یہ (فتح خیبر) تو تمہیں جلدی ہی دے دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے۔ تاکہ یہ ایمان [٢٩] لانے والوں کے لئے ایک نشانی [٣٠] بن جائے اور وہ تمہیں سیدھی [٣١] راہ کی طرف چلائے رکھے
فہم القرآن: (آیت20سے23) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کو اپنی رضا مندی کی خوشخبری دیتے ہوئے یہ بھی بتلا دیا کہ عنقریب تمہیں بہت سی غنیمتیں عطا کی جائیں گی۔ بیعت رضوان جن حالات میں ہوئی۔ کوئی آدمی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس قدر کامیابیاں عطا فرمائے گا۔ صحابہ کرام (رض) کو اس موقعہ پر چار انعامات سے سرفراز کیا گیا۔ اب ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تمہیں ہر صورت کثیر مال غنیمت عطا کرے گا۔ اسی نے اپنے فضل سے حدیبیہ کے مقام پر مکہ والوں کے ہاتھوں کو تمہاری طرف بڑھنے سے روک لیا تاکہ مومنوں کو اللہ کی قدرت کا نمونہ دکھایا جائے اور ان کی صحیح راستے کی طرف راہنمائی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں مزید نعمتیں عطا فرمائے گا جو اللہ تعالیٰ کے احاطہ اختیار میں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یہ اس کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ اہل مکہ تمہارے ساتھ لڑنے کی کوشش کرتے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور پھر وہ کسی کو اپنا مددگار اور خیرخواہ نہ پاتے۔ صحیح راستے سے مراد یہ بھی ہے کہ صلح حدیبیہ کی شرائط تمہیں نہ پسند ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے تمہاری راہنمائی فرمائی کہ تم بالآخر اس معاہدہ پر مطمئن ہوگئے۔ اس سے پہلی آیت میں کثیر غنیمت کی خو شخبری دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم اس کو حاصل کرنے والے ہو لیکن یہاں قَدْ اَحَاط اللّٰہ کے الفاظ میں اشارہ کیا ہے کہ اللہ نے تمہارے لیے ایسی غنیمتیں بھی سنبھال رکھی ہیں جن پر تمہاری دسترس نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون اور طریقہ ہے جو پہلے لوگوں سے چلا آتا ہے۔ آپ اللہ کے قانون اور طریقے میں تبدیلی نہیں پائیں گے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام (رض) مدینہ سے تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر دور ہونے کے ساتھ اسلحہ سے بھی خالی ہاتھ تھے سوائے چند تلواروں کے جو عرب کے لوگ روایتی طور پر سفر میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ وطن سے دور اور اسلحہ سے خالی ہاتھ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے کفار پر صحابہ کا اس قدر رعب ڈال دیا کہ کفار نہ صرف معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے بلکہ وہ اس قدر خوفزدہ تھے کہ انہوں نے اپنی طرف سے معاہدے کی پیشکش کی کہ آئندہ سال جب مسلمان عمرہ کے لیے مکہ آئیں گے تو ہم تین دن کے لیے مکہ خالی کردیں گے تاکہ کسی قسم کے تصادم کا خطرہ باقی نہ رہے۔ اس صورت حال کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے تمہارا کفار پر رعب ڈال دیا۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جنگ کرنے کی کوشش کرتے تو یقیناً پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور اس صورت میں ان کی کوئی مدد اور خیرخواہی کرنے والا نہ ہوتا کیونکہ عرب کے قبائل بدر، احد اور خندق کے معرکوں میں جان چکے تھے کہ تینوں غزوات میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ مکہ والے اپنے لیے کوئی مددگار اور خیرخواہ نہ پاتے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا ضابطہ اور طریقہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو سزا دینے پر آتا ہے تو پھر کوئی زندہ یا مردہ اس کی مدد کرنے والا نہیں ہوتا اور یہی کچھ اہل مکہ کے ساتھ ہوا کہ جب نبی (ﷺ) نے دو سال بعد مکہ والوں کی عہد شکنی کی وجہ سے مکہ کا محاصرہ کیا تو کسی ایک قبیلہ نے بھی اہل مکہ کی حمایت نہ کی۔ مکہ فتح ہونے کے چند ہفتے بعد حنین فتح ہوا۔ غزوہ حنین میں مال غنیمت : چھ (6000) ہزار قیدی، چوبیس (24000) ہزار اونٹ، چالیس (40000) ہزار سے زائد بکریاں، چار (4000) ہزار اوقیہ چاندی ( یعنی ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم) نبی (ﷺ) نے ان سب کو جمع کرنے کا حکم دیا پھر جعرانہ کے مقام پر مسعود بن عمرو غفاری (رض) کی نگرانی میں دے دیا۔ جب غزوۂ طائف سے فارغ ہوئے تو اسے تقسیم فرمایا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حدیبہ کے مقام پر بیعت کرنے والوں کے ساتھ کثیر مال غنیمت عطا کرنے کا وعدہ کیا اور اسے پورا فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں کے ہاتھ روک لیے تھے جس وجہ سے وہ صلح حدیبیہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ 3۔ صلح حدیبیہ کے وقت اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو صحیح راستے پر قائم رکھا جس وجہ سے وہ حدیبیہ پر مطمئن ہوگئے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ اور طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا طریقہ اور قانون یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کی پکڑ کرتا ہے تو پھر اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا : 1۔ اللہ کا عذاب برحق ہے اور تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ (یونس :53) 2۔ اس دن وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے لیکن اللہ کی پکڑ سے انہیں کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (المومن :33) 3۔ اگر اللہ کسی کو تکلیف دے تو کون ہے جو اسے اس سے بچا سکے۔ (الاحزاب :17) 4۔ جسے اللہ رسوا کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (الحج :18) 5۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا کہ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ (ھود :43) 6۔ جب اللہ کسی قوم پر مصیبت نازل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ہٹنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور نہ کوئی بچانے والا ہوتا ہے۔ (الرعد :11) 7۔ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (الرعد :34) 8۔ اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑلیا اور انہیں بچانے والا کوئی نہیں تھا۔ ( المومن :21) 9۔ اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (ہود :43)