فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ
پس آپ جان لیجئے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اپنے لئے نیز مومن مردوں اور عورتوں کے لئے بھی گناہ کی معافی [٢٢] مانگیے۔ اور اللہ تمہارے چلنے پھرنے کے مقامات کو بھی جانتا اور آخری ٹھکانے [٢٣] کو بھی۔
فہم القرآن: ربط کلام : جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے اسے ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ پر ایمان لانے کے ساتھ اس کے تقاضے پورے کرنا چاہئیں کیوں کہ یہ کلمہ تمام نصیحتوں کا ترجمان اور مجموعہ ہے لیکن کفار اور منافقین اس پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کے کلمہ طیبہ کا پہلا حصہ ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ ہوا کرتا تھا جس کی قرآن مجید کے الفاظ سے اس طرح تصدیق ہوتی ہے۔ اے نبی (ﷺ) ! جتنے رسول آپ سے پہلے مبعوث ہوئے انہیں حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں کو بتلائیں کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں اس لیے میری ہی عبادت کرو۔ (الانبیاء :25) ” اہل کتاب کو فرمائیں کہ آؤ اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے۔“ (آل عمران :64) اے رسول (ﷺ) ! آپ اپنے اور مومنوں کے گناہوں کے لیے استغفار کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے کی جگہ کو جانتا ہے۔ دوسرے مقام پر قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کردیا ہے۔ (الفتح :2) لیکن یہاں آپ کو یہ حکم ہوا کہ آپ اپنے اور مومنوں کے گناہوں کے لیے اپنے رب سے معافی طلب کریں۔ مومنوں کے گناہوں کے بارے میں بات واضح ہے کہ ان سے غلطی ہوسکتی ہے لہٰذا آپ کو حکم ہوا کہ آپ اپنے ساتھیوں کے لیے معافی مانگتے رہیں۔ یہاں تک آپ کی ذات اقدس کا معاملہ ہے آپ (ﷺ) کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے گئے تھے۔ اس لیے اہل علم نے ان الفاظ کے تین مفہوم لیے ہیں۔ 1۔ بے شک آپ (ﷺ) انبیاء کرام کے سردار ہیں لیکن جو ذمہ داری آپ کے سپرد کی گئی تھی اس کا تقاضا تھا کہ آپ سے ادنیٰ سے ادنیٰ غفلت بھی نہ ہو پائے۔ بے شک آپ ارفع مقام پر فائز تھے لیکن بحیثیت انسان سستی کا امکان ہوسکتا تھا جس کی آپ اپنے رب سے پناہ مانگا کرتے تھے اور یہی آپ کا استغفار تھا۔ جس پر جتنے ” اللہ“ کے احسانات ہیں اتنا ہی اس کے ذمہ شکر، عبادت اور عاجزی کرنا فرض ہوتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی بجاآوری میں خواہ کتنی ہی کوشش کی جائے، انسان پر لازم ہے کہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرتا رہے اور یہ سمجھے کہ مجھے جو کرنا چاہیے تھا وہ مجھ سے نہیں ہوسکا۔ منعم حقیقی نے جو بے پایاں احسانات مجھ پر فرمائے ہیں میں ان کا حق شکر ادا نہیں کرسکا۔ یہ تصور انسان کا کمال ہے نقص نہیں۔ 3۔ اس آیت کے ضمن میں امام فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ اس آیت کی دو توجیہیں کی گئی ہیں۔ ایک توجیہہ یہ ہے کہ خطاب اگرچہ نبی (ﷺ) سے ہے لیکن مراد امت ہے، یہ توجیہہ درست نہیں کیونکہ مومنین کے لیے استغفار کا علیحدہ حکم ہے۔ دوسری توجیہہ یہ ہے کہ یہاں ” ذَنْبٌ“ سے مراد گناہ یا نافرمانی نہیں بلکہ ترک افضل ہے، امام لکھتے ہیں۔ ” وحاشا من ذالک“ کہ نبی (ﷺ) کی ذات و صفات اس سے منزہ ہے کہ وہ افضل کو چھوڑ کر غیر افضل کریں۔ اس لیے امام رازی (رض) نے اپنی توجیہہ پیش کی ہے فرماتے ہیں ”اِنَّ الْمُرَادَ تَوْفِیْقُ الْعَمَلِ الْحَسَنِ وَ اِجْتِنَابِ الْعَمَلِ السَّیِّئِی“ اچھے کام کی توفیق اور برے کاموں سے اجتناب ہے کیونکہ استغفار کا معنٰی طلب غفران ہے اور غفران کا معنٰی کسی قبیح چیز کا ڈھانپ دینا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کے ارتکاب سے ہی محفوظ رکھے جس طرح نبی (ﷺ) کی شان ہے یا گناہ کے ارتکاب کے بعد اس کو ڈھانپ دے جس طرح کہ مومنین اور مومنات کا حال ہے۔ (ضیاء القرآن جلد چہارم) اس آیت مبارکہ کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے کی جگہ کو جانتا ہے۔ اس ارشاد کے بھی تین مفہوم لیے گئے ہیں۔ 1۔ آپ دشمنوں کی دشمنی سے بے فکر ہو کر ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کی دعوت دیتے جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے گا کیونکہ وہ آپ کے چلنے پھرنے اور قیام کرنے کی جگہوں کو جانتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ آپ کے دنیا میں چلنے پھر نے کے مقامات اور آخری آرام گاہ کو جانتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نیک اور برے لوگوں کے جنت اور جہنم کے ٹھکانے کو جانتا ہے۔ (أَللّٰھُمَّ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لَآأُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَآ أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ) (رواہ مسلم : باب مایقال فی الرکوع والسجود) ” اے اللہ! میں تیری رضا مندی کے ذریعے تیری ناراضی سے اور تیری معافی کے ذریعے تیری سزا سے پناہ مانگتاہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتاہوں میں اس طرح تیری تعریف نہیں کرسکتا جس طرح تیری شایان شان ہے۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) کَانَ یَدْعُوْ یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْھَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَفِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ) (رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب ماجاء فی جامع الدعوات، قال الترمذی ہذا حدیث حسن صحیح) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ! میں تجھ سے سستی، بڑھاپے، بزدلی، بخیلی، مسیح الدجال کے فتنے اور عذاب قبر سے پناہ چاہتاہوں۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (ﷺ) یٰأَ یُّہَا النَّاسُ تُوْبُوْا إِلَی اللَّہِ فَإِنِّی أَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ إِلَیْہِ مائَۃَ مَرَّۃٍ) (رواہ مسلم : باب اسْتِحْبَاب الاِسْتِغْفَارِ وَالاِسْتِکْثَارِ مِنْہُ) ” حضرت ابن عمر (رض) سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا لوگو! اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو۔ بلاشبہ میں ہر روز سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔“ ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کے بنیادی طور پر چار تقاضے ہیں۔ 1۔ اچھی طرح سمجھ کر پڑھنا کہ ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کا معنٰی اور مفہوم کیا ہے؟ 2۔ آخر دم تک اس پر استقامت اختیار کرنا۔ 3۔ اس کے مطابق اپنے عقیدہ، اخلاق اور کردار کو بنانا۔ 4۔ پوری محنت اور اخلاص کے ساتھ اس کا ابلاغ کرنا۔ (عَنْ عُبَادَۃَ ابْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ مَنْ شَھِدَ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارَ) ( رواہ مسلم : باب مَنْ لَقِیَ اللَّہَ بالإِیمَانِ وَہُوَ غَیْرُ شَاکٍّ فیہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَحَرُمَ عَلَی النَّارِ) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا جس نے توحید ورسالت کی گواہی دی اس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ حرام کردی ہے۔“ مسائل: 1۔ سب سے بڑا ذکر اور نصیحت ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کو سمجھنا اور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ 2۔ ہر ایماندار کو اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے چلنے، پھرنے اور ٹھہرنے کی جگہوں کو جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کے تقاضے : 1۔ اللہ کے بندے اس کی توحید کا اقرار کرکے اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ (الاحقاف : 14، حم السجدۃ:30) 2۔ اللہ کے بندے اس پر ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ (البقرۃ:82) 3۔ اپنے چہرے کو دین حنیف پر سیدھا کیے چلتے جاؤ۔ (الروم :30) 4۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین کو چن لیا ہے لہٰذا تمہیں اسلام پر ہی موت آنی چاہیے۔ (البقرۃ :132) 5۔ سب سے بہترین دعوت توحید کی دعوت دینا اور اس کے تقاضے پورا کرنا ہے۔ (حم ٓ السجدۃ:33)