وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّىٰ إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِندِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ
اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں (یعنی منافقین) جو آپ کی بات کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جب تمہارے ہاں سے باہر جاتے ہیں تو ان لوگوں سے، جنہیں علم دیا گیا ہے، پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی اس (نبی) نے کیا کہا تھا ؟ یہی لوگ ہیں، جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی [١٩] خواہشوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں
فہم القرآن: (آیت 16 سے 17) ربط کلام : جن لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان کے برے اعمال خوشنما بنا دئیے جاتے ہیں ان میں منافقین بھی شامل ہیں اس لیے منافقین کی عادت اور ان کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سورت کی ابتدائی آیات کی تفسیر میں عرض ہوچکا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے کفار، مشرکین، اور منافقین کا مومنوں کے کردار اور انجام کے ساتھ موازنہ کیا ہے۔ پہلے کفار اور مشرکین کا مومنوں کے ساتھ موزانہ پیش کیا گیا اور اب منافقین اور مومنوں کا موزانہ کیا جاتا ہے۔ منافقوں کی بری عادات میں ایک عادت یہ تھی کہ جب نبی (ﷺ) کی مجلس میں بیٹھتے تو بظاہر اس طرح آپ کی طرف توجہ کرتے کہ دیکھنے والے یوں محسوس کرتے جیسے یہ پورے انہماک اور اخلاص کے ساتھ نبی (ﷺ) کی گفتگو کو سن رہے ہیں۔ لیکن جب آپ کی مجلس سے نکلتے تو منافق اہل علم صحابہ سے پوچھتے کہ اس نبی نے ابھی ابھی کیا کہا ہے؟ ان کے سوال کرنے کا مقصد بات سمجھنا نہیں تھا۔ ان کا مقصد ایک طرف اپنی لاپرواہی کا اظہار کرنا تھا اور دوسری طرف یہ تاثر دینا تھا کہ نبی (ﷺ) صحیح معنوں میں بات سمجھانے کا ملکہ نہیں رکھتے۔ حالانکہ یہ اس وجہ سے تھا کہ منافق اپنی خواہشات اور مفاد کے بندے بن چکے تھے جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر نفاق کی مہر ثبت کردی تھی۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ ایمان لائے اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص اور کوشش کو دیکھ کر ان کے ایمان اور تقویٰ میں اصافہ فرمادیا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ) (رواہ البخاری : باب علامۃ المنافق) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔“ (جس میں جو اور جتنی عادت ہوگی اتنا ہی وہ منافق ہوگا۔) (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَائِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) (رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ منافقین کا انجام : ﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِوَ لَنْ تَجِدَلَھُمْ نَصِیْرًا﴾ (النساء :145) ” یقیناً منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ تم ان کا کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔“ مسائل: 1۔ منافق اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات کو لاپراواہی کے ساتھ سنتے تھے جس وجہ سے ان کے نفاق میں مزید اضافہ ہوجاتا تھا۔ 2۔ صحابہ (رض) نبی (ﷺ) کے ارشادات کو توجہ کے ساتھ سنتے تھے جس وجہ سے ان کے ایمان میں اضافہ کیا گیا۔ 3۔ مومن کی شان یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات کو اخلاص اور اطاعت کے لیے سنتا ہے اس لیے اس کے ایمان اور تقویٰ میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: منافق کی بری عادات : 1۔ منافق قرآن سن کر اس پر اعتراض کرتا ہے۔ (التوبہ : ١٢٤) 2۔ نبی (ﷺ) کی مجلس سے اٹھ کر منافق اپنے سرداروں کو یقین دلاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ (البقرۃ:14) 3۔ اللہ اور مومنوں کو منافق دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( البقرۃ:9) 4۔ رسول (ﷺ) کو منافق دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( المنافقون :1) 5۔ منافق نماز بھی دھوکہ دینے کی خاطر پڑھتے ہیں۔ ( النساء :142) 6۔ منافق قرآن سنتا ہے تو اس کے نفاق میں اضافہ ہوتا ہے۔ (البقرۃ:10) 7۔ مومن قرآن سنتا ہے تو اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ (الانفال :2)