الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ
جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسروں کو) اللہ کی راہ [٢] سے روکا اللہ تعالیٰ نے ان کے عمل ضائع کردیئے
فہم القرآن: (آیت 1 سے 2) ربط سورت : الاحقاف کے آخر میں ارشاد ہوا کہ اے رسول (ﷺ) ! پہلے رسولوں کی طرح صبر کریں، وقت آنے والا ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے تو اس قدر بد حواس ہوں گے کہ یہ کہیں گے کہ ہم دنیا میں چند گھڑیوں سے زیادہ نہیں ٹھہرے تھے سورۃ محمد (ﷺ) میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ دنیا میں بھی ہلاکت کے گھڑے میں گرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل کرے گا اور ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس سورت میں کفار، منافقین اور مسلمانوں کے اعمال اور ان کے ا نجام کاموازنہ پیش کیا گیا ہے۔ ہوا یہ کہ اعلان نبوت کے بعد کفار اور مشرکین نبی کریم (ﷺ) کی ذات کو انتہائی اختلاف کا باعث سمجھتے تھے۔ اس کشمکش میں یہ سورت نازل ہوئی، اس کا نام آپ کے اسم مبارک پر رکھا گیا تاکہ کفار اور منافقین کو معلوم ہو کہ جس ذات اقدس کو وہ باعث اختلاف سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہستی اور اس کے ساتھیوں کو دنیا اور آخرت میں کیا مقام بخشا ہے۔ سورت کی ابتدا کفار کے رویے سے کی گئی ہے۔ کفار نے نہ صرف خود نبی (ﷺ) کی ذات اور دعوت کا انکار کیا بلکہ انہوں نے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ دنیا کے باطل ادیان اور غلط نظریات پر اللہ کا دین غالب رہے اس لیے اس نے کفار کی کوششوں اور سازشوں کو ناکام کردیا۔ آپ (ﷺ) کے مخالف نہ صرف دنیا میں ناکام ہوئے بلکہ آخرت میں بھی ذلیل ہوں گے۔ انہوں نے جو رفاہ عامہ اور اپنے دل کی تسکین کے لیے اچھے کام کیے ان کے کفر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں بھی ضائع کر دے گا۔ یعنی ان کے کسی اچھے کام کا بھی انہیں اجر نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ جس ذات کبریا نے انہیں اجر عطا کرنا ہے یہ اس کی ذات اور صفات کا انکار کرتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ اچھے اعمال کے اجر سے محر وم رہیں گے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ پہلی کتابوں پر ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے اور اس حق پر بھی ایمان لائے جو حضرت محمد (ﷺ) پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور نیک عمل کرتے رہے اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور صالح اعمال کی وجہ سے ان کی بشری کمزوریوں کو دور کرے گا اور ان کے ا عمال کی اصلاح فرمائے گا۔ بشری کمزوریوں کو دور کرنا اور ان کی اصلاح فرمانے سے مراد دنیا میں ان کے اعمال کی درستگی اور ان کی کمزوریوں کی تلافی کرنا ہے۔ اسی بنا پر نبی اکرم (ﷺ) کے ساتھی دنیا میں مثالی مسلمان بنے اور زندگی کے ہر محاذ پر کامیاب رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطاؤں کو معاف کردیا ہے اور انہیں قیامت کے دن جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا۔ اس آیت میں ” اٰمَنُوْا“ کا لفظ دو دفعہ استعمال ہوا ہے۔ دوسری دفعہ ” اٰمَنُوْا“ استعمال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صرف قرآن مجید پر ایمان نہیں لانا بلکہ حدیث کی صورت میں جو کچھ نبی (ﷺ) پر نازل ہوا ہے۔ اس پر بھی ایمان لانا ہے اس لیے ایمان لانے والے کا یہ بھی یقین ہونا چاہیے کہ نبی کریم (ﷺ) نے قرآن مجید کے علاوہ جو کچھ فرمایا ہے وہ بھی آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے۔ اکثر اہل تفسیر نے اس کا مفہوم یہ لیا ہے کہ دوسری دفعہ ” اٰمَنُوْا“ کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ یہود و نصاریٰ سمجھتے تھے کہ ہم اللہ اور انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے ہم صاحب ایمان ہیں۔ ان کے دعویٰ کی تردید کے لیے یہ وضاحت کردی گئی کہ جو شخص حضرت محمد (ﷺ) پر ایمان نہیں لائے گا اس کا ایمان قابل قبول نہیں ہوگا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) روایت کرتے ہیں رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا تین آدمیوں کے لیے دو گنا اجر ہوگا۔ (1) اہل کتاب میں وہ شخص جو پہلے اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اب مجھ پر ایمان لے آیا۔ (2) وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ اپنے مالک کے حقوق ادا کرتا ہے۔ (3) جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس سے صحبت کرتا ہو۔ تو اس نے اس کی تعلیم وتربیت کا بہترین خیال رکھا اس کے بعد اسے آزاد کر کے اسے اپنے نکاح میں لے لیا۔ اس کے لیے بھی دو گنا ثواب ہے۔ (رواہ البخاری : باب تعلیم الرجل أمتہ وأہلہ) (عَنْ عَائِشَۃ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لَا یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِ اغْفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ) (رواہ مسلم : باب الدلیل علی من مات علی الکفر لاینفعہ عمل) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی کریم (ﷺ) سے سوال کیا کہ ابن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا تھا کیا اسے یہ کام نفع دیں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمادینا۔ (یعنی اس کا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں تھا۔) (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَا یَسْمَعُ بِیْ اَحَدٌمِّنْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ یَھُوْدِیٌّ وَلَا نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِیْ اُرْسِلْتُ بِہٖ اِلَّا کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ) (رواہ المسلم : باب وُجُوبِ الإِیمَانِ بِرِسَالَۃِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ (ﷺ) إِلَی جَمِیع النَّاسِ وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِہِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (ﷺ) کا فرمان ذکر کرتے ہیں اس ذات کبریا کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں جس یہودی یا عیسائی کو میری نبوت کی اطلاع ہوجائے۔ پھر جو کچھ مجھ پر نازل ہوا ہے وہ اس پر ایمان لائے بغیر مر جائے وہ ضرور جہنم میں داخل ہوگا۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن کفر کرنے والوں کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے۔ 2۔ جو لوگ دوسروں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ان کے اعمال برباد کردیے جائیں گے۔ 3۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اللہ تعالیٰ ان کی غلطیوں کو دور فرمائیں گے اور ان کے احوال کی اصلاح کردیں گے۔ 4۔ ایمان لانے والوں کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ نبی (ﷺ) پر نازل کیا گیا ہے وہ اس پر بھی ایمان لائیں۔ تفسیر بالقرآن: کفار کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے اور مومنوں کو ان کے ایمان اور اعمال کی جزا دی جائے گی : 1۔ آخرت کا انکار کرنے والوں کے اعمال ضائع ہوجا تے ہیں۔ (الاعراف :147) 2۔ مشرکین کے اعمال ضائع کردئیے جائیں گے۔ (التوبہ :17) 3۔ ایمان کے ساتھ کفر اختیار کرنے والوں کے اعمال ضائع کر دئیے جاتے ہیں۔ (المائدۃ:5) 4۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کے اعمال برباد کردئیے جاتے ہیں۔ (محمد :33) 5۔ وہ لوگ جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کے اعمال غارت کر دئیے جائیں گے۔ (آل عمران : 21، 22) 6۔ بے شک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (یوسف :90) 7۔ صبر کرو ” اللہ“ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود :115) 8۔ ” اللہ“ کا ارشاد ہے کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا۔ (آل عمران :195) 9۔ ہم تمھارے گناہ مٹا دیں گے اور عنقریب ہم احسان کرنے والوں کو زیادہ دیں گے۔ (البقرۃ:58)