أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ ۚ بَلَىٰ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور انہیں پیدا [٤٦] کرکے تھک نہیں گیا۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کردے۔ کیوں نہیں۔ وہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
فہم القرآن: (آیت 33 سے 34) ربط کلام : جو لوگ اپنے رب کی دعوت قبول نہیں کرتے ان کو چیلنج اور ان کا انجام۔ جو لوگ ” اللہ“ کی ذات پر اس کے حکم کے مطابق ایمان نہیں لاتے کیا وہ غور نہیں کرتے کہ ” اللہ“ وہ ذات ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور ان کے پیدا کرنے میں اسے کوئی تھکان محسوس نہ ہوئی۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے۔ کیوں نہیں ! بلاشبہ وہ کائنات کے ذرہ ذرہ پر مکمل اقتدار اور اختیار رکھنے والا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود جو لوگ اللہ کی ذات، صفات، اس کے احکام اور اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا انہیں جان لینا چاہیے کہ ایک دن آنے والا ہے جس دن انکار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ کے سامنے کھڑا کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ کیا تمہارا دوبارہ زندہ ہونا اور یہ جہنم حقیقت نہیں ہے؟ مجرم پکار اٹھیں گے کیونکہ نہیں ! ہمارے رب ہم دوبارہ زندہ ہوئے اور جہنم بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس اقرار کے بعد اپنے رب سے بڑی عاجزی اور آہ وزاری کے ساتھ معذرت کریں گے کہ ہمیں معاف کردیا جائے لیکن حکم ہوگا کہ اب تم جہنم کے عذاب میں مبتلا رہو گے کیونکہ تم اپنے رب پر ایمان لانے، دوبارہ زندہ ہونے اور اس جہنم کا انکار کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زمین و آسمانوں کی پیدائش، مردوں کو دوبارہ زندرہ کرنے اور جہنم کا بار بار ذکر کیا ہے اس لیے یہاں ان تینوں باتوں کا مختصر ذکر کرنے کے بعد ان کا انکار کرنے والوں کا انجام بیان کیا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے زمین و آسمان پیدا کرنے کے بعد تھکان نہ ہونے کا مسئلہ ہے اس بارے میں یہودیوں اور ان سے متاثرین کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور ہر چیز پیدا کرنے کے بعد تھکان محسوس کی اس لیے ہفتہ کے دن آرام فرمایا جس وجہ سے ہم بھی ہفتہ کے دن کام کاج سے چھٹی کرتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی واضح نفی فرمائی ہے کہ زمین و آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد اسے کوئی تھکان نہیں ہوئی تھی اس نے زمین و آسمانوں اور اپنی مخلوق کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ ہر وقت اپنی مخلوق کی نگرانی اور حفاظت فرما رہا ہے۔ کیونکہ وہ ہر چیز پر مکمل اقتدار اور اختیار رکھتا ہے۔ ﴿وَ لَا یَؤُدُہٗ حِفْظُہُمَا وَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ﴾ (البقرۃ:255) ” اور وہ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتا ہے وہ تو بہت بلند وبالا اور بڑی عظمت والا ہے۔“ زمین و آسمانوں کی تخلیق کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے قیامت کا انکار کرنے والوں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ زمین و آسمانوں کو تخلیق کرنا مشکل کام ہے یا انسان کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل ہے؟ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا اور ان کے پیدا کرنے میں اسے کوئی کمزوری اور تھکاوٹ لاحق نہیں ہوئی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ موت اور زندگی پر مکمل اختیار رکھتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 3۔ قیامت کے دن جب کفار جہنم کی آگ کے سامنے لائے جائیں گے تو وہ اس کا اقرار کریں گے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کفر کرنے والوں کو حکم دئے گا کہ جہنم کا عذاب پاؤ کیونکہ تم اس کا انکار کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: کفار کا قیامت کے دن حقائق کو تسلیم کرنا : 1۔ جہنمی سے جنتیوں کے سوالات اور جہنمی کا اپنے گناہوں کا اقرار کرنا۔ (المدثر : 40تا48) 2۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنمی سے فرمائے گا کیا آج کا عذاب برحق نہیں وہ کہیں گے کیوں نہیں۔ (الاحقاف :34) 3۔ اے ہمارے پروردگار ہماری بدبختی نے ہمیں گھیر لیا تھا اور ہم کافر ہوئے۔ (المومنون :106) 4۔ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کیا یہاں سے نکلنے کا راستہ ہے۔ (المومن :11)