فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
پھر جب انہوں نے اس (عذاب کو) بادل (کی صورت میں) اپنے میدانوں کی طرف بڑھتے دیکھا تو کہنے لگے : ''یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا'' بلکہ یہ وہ چیز تھی جس کے لئے تم جلدی [٣٧] مچا رہے تھے یعنی ایسی آندھی جس میں دردناک عذاب تھا۔
فہم القرآن: (آیت24 سے 25) ربط کلام : قوم کے مطالبہ پر عذاب نازل ہونا اور قوم عاد کا انجام۔ نامعلوم حضرت ھود علیہ السلامنے اپنی قوم کو کس کس انداز میں اور کتنی مدت سمجھایا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کی کوشش فرمائی لیکن ناہنجار قوم نے بالآخر حضرت ھود علیہ السلام کو بدعا کرنے پر مجبور کردیا۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے جب پوری طرح محسوس کیا کہ یہ قوم کسی طرح سدھرنے کے لیے تیار نہیں تو انہوں نے قوم کے اصرار پر اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کی کہ اب اس قوم کا فیصلہ ہوجانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی بدعا قبول کی اور قوم عاد پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ جس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ بڑی مدت کے بعد ایک دن قوم عاد پر کالے بادل اس طرح امڈ کر آئے کہ چند لمحوں میں قوم عاد کے پورے علاقے پر چھا گئے۔ قوم عادنے گھنے اور کالے بادل دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس کی اور یہ امید لگا بیٹھے کہ ابھی موسلا دھار بارش ہونے والی ہے۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ کالے بادل ان پر پانی برسانے کی بجائے ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوں گے۔ کالے اور گھنے بادلوں کے ساتھ اس قدر تیز آندھی چلی کہ جو اپنے گھر سے باہر نکلتا تھا ہوا اسے کئی فٹ اوپر اٹھا کر زمین پر یوں دے مارتی کہ اس شخص کا کچونبر نکل جاتا۔ یہ زمین پر اس طرح گِر پڑے جیسے کھجور کے تنے زمین پر پڑے ہوتے ہیں۔ ﴿وَاَمَّا عَادٌ فَاُہْلِکُوْا بِرِیحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَۃٍ سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمَانِیَۃَ اَیَّامٍ حُسُومًا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْہَا صَرْعَی کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ﴾ (الحاقۃ: 6، 7) ” اور عاد ایک شدید آندھی سے تباہ کر دئیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آندھی کو مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر مسلط کیے رکھا آپ وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ وہ اس طرح پڑے ہیں جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں۔“ قوم عاد جن بادلوں کے بارے میں ابر رحمت کی امید لگائے ہوئے تھی وہی بادل ان کی تباہی کا سبب بنے۔ آندھی نے ان لوگوں کو اس طرح تباہ و برباد کیا کہ دیکھنے والا یوں محسوس کرتا تھا جیسے ان کے مکانوں میں کوئی بسا ہی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو اس طرح ہی سزا دیتا ہے۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) ضَاحِکًا حَتّٰی اَرٰی مِنْہُ لَھَوَاتِہٖ اِنَّمَا کَانَ یَتَبَسَّمُ فَکَانَ اِذَا رَاٰی غَیْمًا اَوْ رِیْحًا عُرِفَ فِیْ وَجْھِہٖ) (رواہ البخاری : باب التبسّم والضحک) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول محترم (ﷺ) کو کبھی کھل کھلا کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ (ﷺ) اکثر مسکرایا کرتے تھے۔ آندھی یا بارش کے وقت آپ کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوجاتے تھے۔“ مسائل: 1۔ قوم عاد نے جن بادلوں پر بارش کی امید لگائی تھی وہی بادل ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوئے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد پر سات راتیں اور آٹھ دن آندھی چلائی اور انہیں پٹک پٹک کر دے مارا۔ 3۔ آندھی اور بادلوں کی کڑک نے قوم عاد کو اس طرح کردیا جیسے وہ اپنے گھروں میں کبھی بسے ہی نہیں تھے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: قوم عاد کے جرائم : 1۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء :139) 2۔ قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو شیطان نے مزین کردیا۔ (العنکبوت :38) 3۔ قوم عاد نے زمین میں تکبر کیا اور کہا کہ ہم سے طاقتور کوئی نہیں۔ (حٰم السجدۃ:15) 4۔ قوم عاد کی تباہی کا سبب رسولوں کی نافرمانی تھی۔ (ھود :59) 5۔ قوم عاد سفّاک اور بڑے ظالم لوگ تھے۔ ( النجم :52) 6۔ قوم عاد نے حضرت ہود (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف :22) 7۔ قوم عاد نے اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کیا۔ قوم عاد کے لیے دوری ہے۔ (ھود :60)