وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے اچھا [١٩] سلوک کرے۔ اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی جنا [٢٠]۔ اس کے حمل اور دودھ چھڑانے [٢١] میں تیس ماہ لگ گئے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی بھرپور جوانی کو پہنچا اور چالیس سال [٢٢] کا ہوگیا تو اس نے کہا : ''میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور یہ بھی کہ میں ایسے اچھے [٢٣] عمل کروں جو تجھے پسند ہوں اور میری خاطر میری اولاد [٢٤] کی اصلاح کر میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبردار ہوں۔
فہم القرآن: ربط کلام : حقوق اللہ کے ذکر کے بعد حقوق العباد کا تذکرہ حقوق میں سب سے پہلے والدین کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے کئی مقامات پر اپنی توحید کا تذکرہ کرنے کے فوراً بعد انسان کو یہ وصیت فرمائی ہے کہ وہ اپنے والدین کا خیال رکھے اور ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرے۔ البقرہ آیت 83میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیا کہ ” اللہ“ کی عبادت کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے اور اپنے والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنا۔ سورۃ بنی اسرائیل میں یہ ارشاد ہوا کہ اے انسان ! تیرے رب کا قطعی فیصلہ ہے کہ صرف اپنے رب کی عبادت کرنا اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ سورۃ لقمان میں ”قَضیٰ“ البقرۃ میں اَخَذْنَا اور یہاں ” وَصَّیْنَا“ کے الفاظ استعمال فرما کر والدین کے حقوق کی فرضیت اور افادیت بیان کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرد یعنی باپ کو گھر کا سربراہ اور قوّام بنایا گیا ہے لیکن خدمت اور حقوق کے حوالے سے ماں کا اولاد پر باپ سے حق فائق ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان کی پیدائش اور اس کی تربیت میں اس کی ماں کا زیادہ کردار ہوتا ہے۔ استقرار حمل سے لے کر بچے کی پیدائش تک ماں بڑی تکلیف اٹھاتی ہے۔ اس طرح وضع حمل سے لے کر بچے کے دودھ چھڑانے تک تیس مہینے ماں کے لیے ہر اعتبار سے آزمائش کے مہینے ہوتے ہیں۔ ماں کے رحم میں جونہی بچے کی تخلیق کی ابتدا ہوتی ہے۔ تو ماں کی زندگی کے معمولات اور ماکولات بدل جاتے ہیں۔ نہ احتیاط کے بغیر چل سکتی ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے کھا پی سکتی ہے کیونکہ اس کے چلنے پھرنے اور کھانے پینے کے اثرات بچے کی پیدائش اور پرورش پر فوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اکثر ماؤں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اپنی مرضی سے کھانا پینا تو درکنار، ان کے لیے باورچی خانے میں جانا بھی تکلیف دہ عمل بن جاتا ہے۔ وہ کھانا جس سے وہ لطف اندوز ہوا کرتی تھی آج اس کی خوشبو بھی اسے ناگوار گزرتی ہے۔ لیکن وہ اپنے بچے کی خاطر ہر تکلیف برداشت کیے جاتی ہے اس امید کے ساتھ کہ اس کی امید اور محنت کا ثمر پھلے پھولے گا اور بڑھاپے میں اس کا سہارا بنے گا۔ اللہ نے اس کی دعاؤں اور محنت کو قبول فرمایا جس کے نتیجے میں اس کا نیک سیرت بیٹا جوان ہوا۔ جب وہ چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو اس کے احساسات اور جذبات کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور دعائیں اور التجائیں کرتا ہے کہ اے میرے رب ! تو نے میرے والدین اور مجھ پر احسانات فرمائے ہیں مجھے تو فیق عطا فرما کہ میں اس پر تیرا شکر ادا کرتا رہوں اور ایسے عمل کروں جس سے تو راضی ہوجائے۔ میرے رب! میری اولاد کو بھی یہ توفیق دینا کہ وہ بھی ان باتوں کا خیال رکھے اور تیری شکر گزار بن کر زندگی بسر کرے۔ اے رب! میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور تیرے تابعدار بندوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ قرآن مجید نے والدین کے حقوق کے تذکرہ کے دوران ” اَخَذَ“، ” قَضٰی“ اور ” وَصَّیْنَا“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں تاکہ انسان کو معلوم ہو کہ اس کے رب کے نزدیک انسان کے والدین کا کیا مقام اور احترام ہے۔ اس آیت مبارکہ میں عورت کے حمل اور بچے کے دودھ پلانے کی مدّت کو تیس مہینے شمار کیا گیا ہے۔ البقرۃ آیت 233سورۃ لقمان آیت 14میں بچے کے دودھ پلانے کی مدت دوسال بیان کی گئی ہے۔ یہاں حمل اور دودھ پلانے کی مدت کو شامل کر کے تیس مہینے شمار کیا ہے کچھ لوگوں کو چھوڑ کر امت کے اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بچے کو دودھ پلانے کی مدّت زیادہ سے زیادہ دوسال ہے۔ تیس مہینوں سے چوبیس مہینے نکال دیئے جائیں تو چھ مہینے باقی رہ جاتے ہیں۔ بچہ پیدا ہونے کی یہ کم سے کم مدت ہے جس کی موجودہ میڈیکل سائنس بھی تصدیق کرتی ہے کہ چھ مہینے میں پیدا ہونے والا بچہ اپنی تخلیق کے اعتبار سے مکمل ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے بچے کی پیدائش کی کم سے کم مدت بیان کی ہے۔ اس آیت اور سورۃ لقمان کی آیت 14اور سورۃ البقرہ کی آیت 233سے ایک اور قانونی نکتہ نکلتا ہے جس کی نشاندہی ایک مقدمے میں حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے کی اور حضرت عثمان (رض) نے اپنا فیصلہ بدل دیا۔ قصہ یہ ہے کہ حضرت عثمان (رض) کے عہد خلافت میں ایک شخص نے قبیلہ جہنیہ کی ایک عورت سے نکاح کیا شادی کے چھ مہینے بعد اس کے ہاں صحیح و سالم بچہ پیدا ہوگیا۔ اس شخص نے حضرت عثمان (رض) کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا۔ حضرت عثمان (رض) نے اس عورت کو زانیہ قرار دے کر حکم دیا کہ اسے رجم کردیا جائے۔ حضرت علی (رض) نے یہ قصہ سنا تو فوراً حضرت عثمان (رض) کے پاس پہنچے اور کہا کہ یہ آپ نے کیا فیصلہ کردیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ نکاح کے چھ مہینے بعد اس نے زندہ سلامت بچہ کو جنم دیا ہے کیا یہ اس کے زانیہ ہونے کا واضح ثبوت نہیں۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا نہیں۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کی مذکورہ بالا تینوں آیتیں ترتیب کے ساتھ پڑھیں۔ سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” مائیں اپنے بچوں کو پورے دوسال دودھ بلائیں۔ سورۃ لقمان میں فرمایا : ” دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔“ سورۃ احقاف میں فرمایا :” اس کے حمل اور اس کا دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگے۔“ اب اگر تیس مہینوں میں سے رضاعت کے دوسال نکال دیئے جائیں تو حمل کے چھ مہینے رہ جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم سے کم مدّت، جس میں زندہ سلامت بچہ پیدا ہوسکتا ہے چھ مہینے ہے۔ لہٰذا جس عورت نے نکاح کے چھ مہینے بعد بچہ جنم دیا اسے زانیہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت علی (رض) کا یہ استدلال سن کر حضرت عثمان (رض) نے فرمایا اس بات کی طرف میرا ذہن نہیں تھا۔ حضرت عثمان (رض) نے عورت کو واپس بلوایا اور اپنا فیصلہ بدل دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی (رض) کے استدلال کی تائید حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے بھی کی اور اس کے بعد حضرت عثمان (رض) نے اپنے فیصلے سے رجوع فرمالیا۔ (ابن جریر، احکام القرآن للجصاص) (بحوالہ تفہیم القرآن جلدچہارم ) ﴿وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ﴾ (البقرۃ:233) ” اور مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت پوری کرنے کا ہو۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِی قَالَ أُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ أَبُوکَ.) (رواہ البخاری : باب البِرِّ وَالصِّلَۃِ) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم (ﷺ) کے پاس آیا اور اس نے استفسار کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیری ماں۔ پھر تیری ماں۔ پھر تیری ماں۔ پھر تیرا باپ۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) فَقَالَ إِنَّ أَبِی اِجْتَاحَ مَالِی فَقَالَ أَنْتَ وَمَالُکَ لِأَبِیْکَ وَقَالَ رَسُولُ (ﷺ) إِنَّ أَوْلاَدَکُمْ مِنْ أَطْیَبِ کَسْبِکُمْ فَکُلُوا مِنْ أَمْوَالِہِمْ) (رواہ ابن ماجہ : بَابُ مَا للرَّجُلِ مِنْ مَالِ وَلَدِہِ) ” عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم (ﷺ) کے پاس آکر کہنے لگا کہ میرا باپ میرے مال کا محتاج ہے آپ نے فرمایا : تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے اپنی اولاد کے مال سے کھاؤ۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ رِضَی الرَّبِّ فِیْ رِضَی الْوَالِدِ وَسُخْطُ الرَّبِّ فِیْ سُخْطِ الْوَالِدِ) (رواہ الترمذی : باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو نبی معظم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا : والد کی خوشی میں رب کی رضا ہے اور والد کی ناراضگی میں رب کی ناراضگی ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرے۔ (بنی اسرائیل :23) 2۔ ماں اپنی اولاد کی خدمت کی زیادہ حق دار ہے کیونکہ وہ بڑی تکلیف کے بعد بچے کو جنم دیتی ہے۔ 3۔ وضع حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔ 4۔ بچے کو دودھ پلانے کی مدت دوسال ہے۔ (البقرۃ:233) 5۔ انسان کو اپنے رب کا شکر گزار رہنے اور والدین کی خدمت پر اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتے رہنا چاہیے۔ 6۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں اپنے رب کا تابع فرمان رہے۔ تفسیر بالقرآن: والدین کے حقوق : 1۔ والدین سے نیکی کرنے کا حکم۔ (بنی اسرائیل :23) 2۔ والدین کو اف کہنا اور جھڑکناجائز نہیں۔ (بنی اسرائیل :233) 3۔ والدین کے سامنے عاجزی سے رہنا اور ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ (بنی اسرائیل :24) 4۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان :15) 5۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم۔ (مریم :32) 6 حضرت نوح (علیہ السلام) کی اپنے والدین کے لیے مغفرت کی دعا۔ (نوح :28)