قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
آپ ان سے کہئے : بھلا دیکھو، اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اس کا انکار کردیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ نے ایسی ہی گواہی بھی دے دی [١٤] چنانچہ وہ تو ایمان لے آیا اور تم اکڑ بیٹھے؟ (تو تمہارا کیا انجام ہوگا ؟) بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
فہم القرآن: ربط کلام : ” نبی آخر الزّماں (ﷺ) پہلے اور انوکھے رسول نہیں تھے۔“ آپ (ﷺ) کا تذکرہ پہلی کتابوں میں پایا جاتا ہے جس کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ اہل مکہ اور یہود ونصاریٰ اپنے اپنے انداز میں یہ پراپیگنڈہ کرتے کہ محمد (ﷺ) اللہ کا رسول نہیں۔ یہ اپنی طرف سے قرآن مجید بنا کر نبوت کا دعویٰ کیے جارہا ہے اس موقع پر ان کے پراپیگنڈہ کے دو جواب دیئے گئے۔ ایک کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہوا اور دوسرے کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ اے نبی (ﷺ) ! انہیں فرمائیں کہ اگر قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تم اس کا انکار کرتے ہو۔ حالانکہ اس سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قرآن اور نبی آخر الزماں (ﷺ) کی تائید کرچکے ہیں۔ جس کا ثبوت تورات اور انجیل میں جابجا پایا جاتا ہے اسی بنا پر اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو قرآن اور نبی آخر الزماں کے بارے میں گواہی دیتے ہیں کہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور حضرت محمد (ﷺ) حقیقتاً اللہ کے آخری رسول ہیں۔ سیرت رسول اور حدیث کی کتب میں یہ واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے کہ جب نبی آخر الزماں (ﷺ) مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو ایک دن مدینہ کے بہت بڑے دانشور، تورات اور انجیل کے عالم عبداللہ بن سلام آپ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس نے آپ سے چند سوالات کیے۔ اپنے سوالات کا تسلی بخش جواب پاکر ابن سلام نے آپ کی بیعت کی۔ بیعت کرنے کے بعد عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! یہود کے فلاں فلاں آدمی کو طلب کریں اور ان سے میرے بارے میں استفسار فرمائیں کہ میں ان کے ہاں کیسا آدمی ہوں؟ نبی کریم (ﷺ) نے مدینہ کے چند بڑے یہودیوں کو اپنے ہاں بلایا اور ان سے استفسار فرمایا کہ عبداللہ بن سلام کیسا آدمی ہے ؟ یہودیوں نے کہا وہ ہم سب سے زیادہ پڑھا لکھا اور معزز انسان ہے، اور ہمیں اس کی دیانت وامانت پر پورا یقین ہے۔ آپ نے فرمایا اگر عبداللہ بن سلام اسلام قبول کرلے تو کیا تم ایسا کرنے کے لیے تیار ہو ؟ یہودی کہنے لگے یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اچانک ان کے سامنے آئے اور کلمہ طیبہ پڑھا۔ اس پر یہودی کہنے لگے عبداللہ خود بھی برا آدمی ہے اور اس کا باپ بھی ایسا ہی تھا۔ (بخاری : کتاب المناقب) نبی (ﷺ) کے دور میں عبداللہ بن سلام (رض) کچھ یہودی مسلمان ہوئے لیکن یہودیوں کی غالب اکثریت تکبر کی بنیاد پر ایمان لانے سے انکاری رہی۔ جو شخص حقیقت جاننے کے باوجود قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کا انکار کرتا ہے وہ اقرار کرے یا نہ کرے حقیقت میں وہ متکبر ہوتا ہے۔ متکبر شخص ظالم ہوتا ہے اور ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَّنَعْلُہٗ حَسَنَۃً قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (رواہ مسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوا وہ 3 میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک آدمی نے کہا کہ آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ 2۔ یہود و نصاریٰ قرآن کی حقیقت جاننے کے باوجود تکبر کی بنیاد پر انکار کرتے ہیں۔ 3۔ تورات، انجیل میں جا بجا قرآن مجید اور نبی اکرم (ﷺ) کے نبی آخر الزمان ہونے کی تائید پائی جاتی ہے۔ 4۔ جو شخص حق بات کا انکار کرتا ہے وہ ظالم اور متکبر ہے۔ ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا : 1۔ اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (البقرۃ:258) 2۔ اللہ تعالیٰ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدۃ:108) 3۔ آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (النحل :107) 4۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (البقرۃ:264) 5۔ گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دی جاتی۔ (النحل :37)