قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
آپ ان سے کہئے کہ ’’میں کوئی نرالا رسول [١٢] نہیں ہوں، میں یہ بھی نہیں جانتا کہ مجھ سے کیا سلوک [١٣] کیا جائے گا اور تم سے کیا ؟ میں تو اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں تو محض ایک واضح طور پر ڈرانے والا ہوں‘‘
فہم القرآن: ربط کلام : اہل مکہ کے پراپیگنڈہ کے جواب میں نبی (ﷺ) کی طرف سے ایک اور اعلان۔ اے نبی (ﷺ) ! ان سے یہ بھی فرمائیں کہ میں کوئی نیا رسول نہیں اور نہ ہی مجھے یہ علم ہے کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ میں تو صرف اس بات کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں کھلے الفاظ میں برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانے والا ہوں۔ اہل مکہ ایک طرف نبی کریم (ﷺ) کو جھوٹا قرار دیتے اور آپ پر مختلف قسم کے الزام لگاتے تھے لیکن دوسری طرف آپ سے مطالبات کرتے کہ اگر آپ حقیقتاً اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کے پاس کم از کم یہ چیزیں ہونا ضروری ہیں۔ ان کے مطالبات کا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ ان کے مطالبات پورے نہیں کرتیتو ہم لوگوں کے سامنے کہیں گے کہ یہ شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے اور اس میں کوئی خاص بات نہیں یہ تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم (ﷺ) انسانی حاجات کے حوالے سے ایک انسان تھے لیکن اپنے مقام، اوصاف اور دعوت کے حوالے سے بے مثال انسان اور رسول تھے۔ بلکہ تمام رسولوں کے سردار تھے۔ اس لیے آپ کی زبان اطہر سے اس موقع پردو باتیں کہلوائیں گئیں کہ آپ اعلان فرمائیں کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں بلکہ اس طرح ہی اللہ کا رسول ہوں جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے حضرت نوح، ابراہیم اور دیگر انبیائے کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تھا۔ پہلے انبیاء بھی رسول ہونے کے ساتھ انسان تھے اور میں بھی اللہ کا رسول ہونے کے ساتھ ایک انسان ہوں۔ نہ پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو اللہ کی خدائی میں کوئی اختیار حاصل تھا اور نہ ہی مجھے اس کی خدائی میں کسی قسم کا کوئی اختیار ملا ہے۔ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے اور تمہارے ساتھ کیا کچھ ہونے والا ہے۔ میرا کام ” اللہ“ کے پیغامات کو لوگوں تک پہچانا اور انہیں کھلے الفاظ میں انتباہ کرنا ہے۔ اس آیت میں نبی (ﷺ) سے یہ اعلان کروایا گیا ہے کہ آپ کہیں کہ میں کوئی انوکھا یعنی نیا رسول نہیں ہوں مجھ سے پہلے کئی رسول آئے اور وہ لوگوں کو ” اللہ“ کے احکام پہنچاتے رہے میں بھی تمہیں وحی کے مطابق تمہارے برے اعمال کے انجام سے ڈراتاہوں لہٰذا وقت ہے سمجھ جاؤ ورنہ ایک دن آئے گا کہ تمہیں اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ﴿وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ (سبا :28) ” اور اے نبی ہم نے آپ کو لوگوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ مسائل: 1۔ نبی آخرالزماں (ﷺ) پہلے رسولوں کی طرح ایک رسول تھے۔ 2۔ نبی اکرم (ﷺ) بھی نہیں جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے اور آپ کے مخالفوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ 3۔ نبی (ﷺ) ” اللہ“ کی وحی کے پابند تھے۔ 4۔ نبی (ﷺ) لوگوں کو کھلے الفاظ میں انتباہ کرنے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن: نبی کریم (ﷺ) غیب نہیں جانتے تھے : 1۔ ” اللہ“ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام :59) 2۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب ” اللہ“ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل :65) 3۔ نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ (ھود :31) 4۔ نبی اکرم (ﷺ) کا اعلان اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت ساری بھلائیاں اکٹھی کرلیتا۔ (الاعراف :188) 5۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں آپ اس وقت موجود نہ تھے۔ (یوسف :12) 6۔ میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (الانعام :50) 7۔ فرما دیجیے غیب اللہ کے لیے ہے تم انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (یونس :20)