أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ خود ہی اسے بنا لایا [٩] ہے۔ آپ ان سے کہئے : اگر میں نے خود بنا لیا ہے تو تم مجھے اللہ (کی گرفت) سے بچانے کی کچھ بھی [١٠] طاقت نہیں رکھتے۔ جن باتوں میں تم لگے ہوئے ہو اللہ انہیں خوب جانتا ہے۔ میرے اور تمہارے درمیان وہی گواہی دینے کے لئے کافی ہے اور وہ بخش دینے والا [١١] اور رحم کرنے والا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : مشرکین کی گمراہی کی ایک اور انتہا۔ مشرکین مکہ ” اللہ“ کو خالق، مالک اور رازق ماننے کے باوجود توحید پر مبنی آیات سنتے تو کہتے کہ یہ تو واضح طور پر جادو دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ان کا یہ بھی پراپیگنڈہ تھا کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں کیا گیا۔ بلکہ محمد (ﷺ) اپنی طرف سے بنا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان دونوں الزامات کے کئی جواب دیئے ہیں مگر اہل مکہ اپنی یا وہ گوئی پر اصرار کرتے رہے۔ آج بھی کچھ لوگ بلا دلیل نزول قرآن کا انکار کرتے ہیں۔ یہاں ان کے انکار اور الزام کا یہ جواب دیا گیا کہ اے نبی (ﷺ) ! ان سے فرمائیں کہ اگر میں نے قرآن مجید اپنی طرف سے بنا لیا ہے تو پھر مجھے تم ” اللہ“ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے۔ البتہ جو باتیں تم میرے اور قرآن مجید کے بارے میں بناتے اور کرتے ہو اللہ تعالیٰ انہیں خوب جانتا ہے۔ وہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ اہل مکہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ اعلان نبوت سے پہلے محمد (ﷺ) نے اس طرح کی بات کبھی نہیں کی تھی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت محمد (ﷺ) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ پھر بھی آپ پر الزام لگاتے کہ آپ نے قرآن اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ ان کی یا وہ گوئی کا مزید جواب دینے کی بجائے اسے یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا ہے کہ آپ (ﷺ) فرما دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے اور وہی حق اور سچ کا فیصلہ کرے گا۔ وہی اپنے بندوں پر رحم فرمانے والا اور ان کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ غفور الرحیم کی صفات لا کر اشارہ کیا ہے اے قرآن کا انکار کرنے والواگر تم اپنا رویہ تبدیل کرلو اور قرآن پر ایمان لے آؤ تو اللہ تعالیٰ تمہاری گستاخیوں اور غلطیوں کو معاف کرنے والا ہے۔ لہٰذا تمہیں اپنے رب سے معافی مانگ لینی چاہیے تاکہ وہ تم پر رحم فرمائے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ، قال الشیخ البانی حسنٌ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی پاک ہوجاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْئَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل: 1۔ قرآن مجید کی تاثیر دیکھ کر اہل مکہ اسے جادو قرار دیتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرامین کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔ 3۔ نبی (ﷺ) کا عقیدہ اور اعلان یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میری گرفت کرنے پر آئے تو کوئی بھی مجھے چھڑا نہیں سکتا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر گواہ ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو معاف کرنے والا اور ان پر مہربانی فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب دینا چاہے تو اسے کوئی نہیں بچا سکتا : 1۔ ” اللہ“ کا عذاب برحق ہے اور تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ (یونس :53) 2۔ کفار کے چہروں پر ذلت چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ (یونس :27) 3۔ اس دن وہ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے انہیں اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ (المومن :33) 4۔ اگر ” اللہ“ کسی کو تکلیف دے تو کون ہے جو اسے اس سے بچا سکے۔ (الاحزاب :17) 5۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود :43)