سورة الأحقاف - آیت 1

م

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

حا۔ م

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 2) ربط سورت : سورۃ الجاثیہ کے آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ جس رب نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں وہی رب العالمین ہے اور زمین و آسمانوں میں صرف وہی ایک کبریا ہے۔ الاحقاف کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ اس کی کبریائی کا عالم یہ ہے کہ زمین و آسمانوں میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو کسی چیز کی تخلیق میں اس کی شریک ہو یا اسے اس کی خدائی میں کوئی اختیار حاصل ہو۔ حمٓ سورتوں میں سے ساتویں سورت ہے۔ حمٓ کا لفظ حروف مقطعات میں شامل ہے۔ اس کا معنٰی صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے یا اللہ کے رسول (ﷺ) جانتے تھے۔ الکتاب سے مراد قرآن مجید ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے جو ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غلبہ رکھنے والا اور اپنا ہر حکم نافذ کرنے پر قادر ہے۔ کائنات پر قوت وسطوت رکھنے اور ہر اعتبار سے غالب ہونے کے باوجود اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔” اَلْحَکِیْمِ“ کا لفظ ” حُکْمَ“ سے نکلا ہے جس کا دوسرا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا حاکم ہے اس لیے جن و انس کا فرض بنتا ہے کہ وہ دل وجان سے اس کے حکم کو تسلیم کریں اور ہر حال میں اس کی بندگی کرتے رہیں۔ قرآن مجید کے مخالف باربار پراپیگنڈہ کرتے تھے کہ محمد (ﷺ) نے اس قرآن کو اپنی طرف سے بنالیا ہے۔ اس الزام کے کافی اور شافی جواب دیئے گئے مگر پھر بھی وہ یہی کہتے تھے کہ ” محمد (ﷺ) “ نے قرآن اپنی طرف سے بنالیا ہے۔ ان کی ہٹ دھرمی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن نبی (ﷺ) کا خود ساختہ یا کسی کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اس کا ایک ایک حرف اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ مسائل: 1۔ حروف مقطعات کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٢۔ قرآن مجید ” اللہ“ غالب حکمت والے نے نازل فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہے : (یوسف :21) (البقرۃ:117) (الانعام :61) ( المجادلہ :21) (البقرۃ :20) (الحشر :1) (الانفال :49)