أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
بھلا آپ نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو الٰہ [٣٣] بنا رکھا ہے اور اللہ نے علم کے باوجود [٣٤] اسے گمراہ کردیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ؟ اللہ کے بعد اب کون ہے جو اسے ہدایت دے سکے؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟
فہم القرآن: ربط کلام : جو آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو یونہی پیدا کیا ہے اور مومن اور فاسق کے انجام میں کوئی فرق نہیں۔ درحقیقت وہ شخص اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے۔ کیونکہ کسی کے انجام کو جاننا اور اس کا فیصلہ کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جس شخص نے اپنے نظریات اور جذبات کو الٰہ بنا لیا ہے۔ اس کے افکار اور کردار پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے علم دینے کے باوجود گمراہی میں کھلا چھوڑ دیا ہے جس کے نتیجے میں اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی گئی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے سوا اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اس کے باوجود تم نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ الٰہ کا معنٰی ہے معبود یعنی جس کی عبادت کی جائے۔ عبادت کا جامع مفہوم یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی اپنے رب کی غلامی میں بسر ہونی چاہیے۔ جس شخص نے اپنے نفس کو الٰہ بنا لیا ہے وہ اللہ کی ذات اور اس کی بات کی پرواہ کیے بغیر زندگی گزارتا ہے ایسا شخص کسی اخلاق اور ضابطے کا پابند نہیں ہوتا۔ اس کے سامنے اپنی خواہشات کی تکمیل اور دنیا کی ترقی کے سوا کوئی مشن نہیں ہوتا۔ اس شخص کو اقتدار ملے تو اپنے آپ کو فرعون سمجھتا ہے۔ اسے طاقت نصیب ہو تو درندہ بن جاتا ہے۔ اس کے پاس مال ہو تو غریبوں کے لیے قارون بن ثابت ہوتا ہے۔ اسے افرادی طاقت مل جائے تو ابوجہل کا کردار پیش کرتا ہے۔ یہ شخص اپنے مفاد اور اقتدار کی خاظر اور ملک و ملت کے ساتھ غداری کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اپنے نفس کو معبود بنانے والا شخص عالمِدین ہو تو اپنے ایمان اور دین کو دنیا کی خاطر بیچ ڈالتا ہے۔ ایسی سوچ رکھنے والا آدمی گھٹیا سے گھٹیا حرکت کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اس کی گمراہی کے حوالے کردیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کے کان حق بات سننا گوارہ نہیں کرتے۔ دل سچائی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں کو دیکھنے کے باوجود اس کی آنکھیں اندھی رہتی ہیں۔ اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ اسی شخص کو ہدایت دیتا ہے جوہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ﴿وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ﴾ کے مفسرین نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔1 ۔یہ شخص اپنے نفس کا بچاری ہونے کی وجہ سے عالم ہونے کے باوجود گمراہی کے حوالے کردیا گیا ہے۔ 2۔اپنے نفس کو معبود بنانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہی میں پھینک دیا ہے۔ 3 ۔اپنے نفس کو معبود بنانے والا شخص اپنے نظریات اور جذبات کو حق اور اس کا معیار سمجھتا ہے اس لیے وہ گمراہی میں مبتلارہتا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ) [ مشکوٰۃ: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : آدمی اپنی خواہشات کو جب تک میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کرے تب تک وہ ایمان دار نہیں ہوسکتا۔“ مسائل: 1۔ جو شخص اپنے نفس کا غلام بن جائے اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا۔ 2۔ جس کی گمراہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے وہ بھی ہدایت نہیں پاسکتا۔ 3۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔ تفسیربالقرآن: اپنی اور لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا شخص گمراہ ہوتا ہے : 1۔ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا گمراہ ہوتا ہے۔ (صٓ:26) 2۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجا تا ہے۔ (طٰہٰ:16) 3۔ سب سے بڑا گمراہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہے۔ (القصص :50) 4۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا خواہشات کو الٰہ بنا لیتا ہے۔ (الفرقان :43) 5۔ حق کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے سے زمین و آسمان میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ (المؤمنون :71)