أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ
کیا یہ بہتر ہیں یا قوم تبع [٢٧]؟ اور اس سے پہلے [٢٨] کے لوگ؟ ہم نے ان سب کو ہلاک کردیا۔ کیونکہ وہ مجرم تھے
فہم القرآن: ربط کلام : آل فرعون اور اس کے ساتھیوں کا ظلم بیان کرنے کے بعد اہل مکہ کو قوم تبّع کا حوالہ دیا ہے جس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ فرعون اور قوم تبّع کی تاریخ سامنے رکھو! جو اقتدار اور وسائل کے اعتبار سے تم سے بڑھ کرتھے۔ ان کے جرائم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا۔ تم ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہو۔ اگر تم ہلاکت سے بچنا چاہتے ہو تو پھر اپنے آپ کو ” اللہ“ اور اس کے رسول کے تابع کرلو۔ جس طرح فارس کا بادشاہ کسریٰ، روم کا حکمران قیصر، مصر کا فرمانروا اپنے آپ کو فرعون کہلواتا تھا اسی طرح یمن کا بادشاہ تبع کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ تبع وہاں کی سب سے بڑی قوم تھی۔ یہ قوم یمن میں ممتاز سمجھی جاتی تھی۔ اس قوم نے یمن میں تین سو سال حکمرانی کی۔ قوت اور سطوت کے اعتبار سے ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ طویل اقتدار اور مال واسباب کی فراوانی نے اس قوم کو مغرور اور متکبر کردیا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی اور ان پر ایسا زوال آیا کہ یہ گلی کے تنکوں سے بھی ہلکے ہوگئے۔ اس قوم کے لیے خیر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنٰی فکرو عمل کے اعتبار سے بہتر ہونا نہیں بلکہ خیر سے مراد مال و اسباب کے لحاظ سے مکہ والوں سے بہتر ہونا ہے۔ کیونکہ ان کے مال کی طرف اشارہ فرما کراہل مکہ کو سمجھایا ہے کہ تم قوم تبع سے مالی لحاظ سے بڑے نہیں بلکہ کمتر ہو۔ لیکن پھر بھی سرکشی اختیار کیے ہوئے ہو۔ اسی علاقے سے ہی وہ لوگ اٹھے تھے جنہوں نے بیت اللہ کو شہید کرنے فیصلہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابابیل بھیج کر انہیں تہس نہس کردیا۔ جس کی تفصیل سورۃ الفیل کی تفسیر پڑھنی چاہیے۔ کچھ مفسرین نے اپنے مشرکانہ عقیدہ کی تائید اور زیب داستان کے لیے اسرائیلی روایات کی بنیاد پر تبع کی قوم کے اس بادشاہ کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ مدینہ کی سرزمین سے گزرہا تھا۔ اس کے اہل علم نے اسے بتلایا کہ یہاں آخر الزماں پیغمبر (ﷺ) تشریف فرما ہوں گے۔ اس نے اپنے اہلکار کے ذریعے نبی (ﷺ) کی خدمت میں خط لکھا جس میں یہ درخواست کی کہ آپ میرا اسلام قبول کریں اور قیامت کے دن میری سفارش فرمائیں۔ یہ خط جن لوگوں کے حوالے کیا۔ اس قبیلے نے اسے نسل درنسل محفوظ رکھا اور جب نبی اکرم (ﷺ) مدینہ تشریف لائے تو اس قبیلے کے افراد نے وہ خط نبی (ﷺ) کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے اس بادشاہ کا اسلام قبول کیا اور اس کے لیے دعا کی۔ (اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔)