فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ
(اللہ نے حکم دیا کہ) اور میرے بندوں کو رات کے وقت لے کر نکل جاؤ۔ یقیناً تمہارا تعاقب [١٨] کیا جائے گا۔
فہم القرآن: (آیت 23 سے 29) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کے بارے میں موسیٰ (علیہ السلام) کی بدعا قبول فرمائی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ ہجرت معمولی کام نہیں کہ پیغمبر کا دل اکتائے اور وہ اپنی قوم کو چھوڑ کرکہیں اور چلاجائے۔ یہ مشکل ترین کام ہے جسے انتہائی مشکل ترین حالات میں کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس پیغمبر کو بھی ہجرت کی اجازت دی گئی اس کے حالات اتنے پرکٹھن تھے کہ پیغمبر کا مزید وہاں رہنا سود مند نہیں تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبروں کو ہجرت کرنے کی اجازت دی جاتی تھی۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مصر سے ہجرت کرنے کی اجازت عطا فرمائی اور یہ ہدایت کی کہ رات کے وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکل جاؤ لیکن یاد رکھنا کہ تمہارا تعاقب ضرور کیا جائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہجرت کی اجازت ملنے پر اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ پوری احتیاط کے ساتھ فلاں دن اور فلان وقت سمندر کے فلاں مقام پر پہنچ جائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مصر کی سرزمین چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق ان کے ساتھی ہر شہر اور علاقے سے نکل کر سمندر کے اس مقام پر پہنچے جس کی انہیں نشاندہی کی گئی تھی۔ جن کی تعداد مؤرخین نے ایک لاکھ کے قریب بتلائی ہے اتنی تعداد میں مختلف شہروں اور علاقوں سے لوگوں کا اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلنا اور ایک ہی مقام کی طرف رخ کرنا زیادہ دیر تک کس طرح خفیہ رہ سکتا تھا۔ ہجرت کرنے والوں نے بے شک پوری احتیاط کی۔ لیکن فرعون کی ایجنسیاں ان پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھیں۔ جونہی انہوں نے فرعون تک اطلاع پہنچائی تو فرعون نے انتظامیہ کو ان الفاظ میں حکم جاری کیا کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں۔ جنہوں نے ہمیں بہت غصہ دلادیا ہے اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کاشیوہ ہر وقت چوکس رہنا ہے۔ (الشعراء : 54تا56) فرعون کے حکم کے مطابق انتظامیہ کے لوگ اور بڑے بڑے لیڈر اپنے گھروں سے نکل کر اجتماعی شکل میں بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے ہیں۔ ان کے نکلنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں ان کے باغات، چشموں، خزانوں اور عمدہ مکانوں سے نکالا اور اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث بنایا۔ فرعون نے بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے وقت سرکاری طور پر جو اعلان کیا اس کے الفاظ یہ تھے کہ لوگو! اپنے اپنے شہروں سے باہر نکلو بے شک بنی اسرائیل تھوڑے ہیں لیکن ان کا پوری طرح تعاقب کرو یہ لوگ جانے نہ پائیں۔ انتظامی نقطہ نظر سے چاہیے تو یہ تھا کہ فو ج کے چند دستے اور سول انتظامیہ کی بھاری نفری بھیج کر نہتے اسرائیلیوں کو گرفتار کرلیا جاتا یا پھر مار مار کر ملک کی سرحد سے باہر نکال دیا جاتا۔ لیکن فرعون نے طیش میں آکر سول انتظامیہ اور فوج کے ساتھ وزیروں، مشیروں اور ملک بھر سے بڑے بڑے پارٹی لیڈروں کو اکٹھا کر کے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا۔ ان کے اس طرح نکلنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرماکر ثابت کیا ہے کہ یہ ہماری منشاء کے مطابق ہوا تاکہ ہم انھیں ان کے باغات، چشموں، خزانوں اور ان کے محلاّت سے بےدخل کریں اور دوسری قوم کو ان کی تمام چیزوں کا وارث بنائیں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں نے فرعون اور اس کے لشکر و سپاہ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو وہ پکار اٹھے کہ ہم تو مارے گئے۔ ﴿ فَلَمَّا تَرَاءَ الْجَمْعَانِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰی اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَقَالَ کَلَّا اِِنَّ مَعِی رَبِّی سَیَہْدِیْنِ ﴾ [ الشعراء : 61، 62] ” جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰ کے ساتھی چیخ اٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰ نے فرمایا ہرگز نہیں میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا۔“ ﴿فَاَوْحَیْنَا اِِلٰی مُوْسٰی اَنْ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ﴾ [ الشعراء :63] ” ہم نے موسیٰ کو وحی کے ذریعہ حکم دیا کہ سمندر پراپنا عصا مار تو یکایک سمندر پھٹ گیا۔ اور اس کی ہر لہر بہت بڑے پہاڑکی طرح کھڑی ہوگئی۔“ ادھر موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی سمندر عبور کررہے تھے دوسری طرف فرعون اپنے ساتھیوں سمیت سمندر میں انہی راستوں سے داخل ہوا جہاں سے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی گزر چکے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) چاہتے تھے کہ ایک دفعہ پانی پر عصا مار کر راستے بند کردئیے جائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر روک دیا کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو سمندر میں داخل ہونے دیں۔ جونہی وہ سمندر میں داخل ہوں تو اپنا عصا سمندر پر ماریں تاکہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا جائے موسیٰ (علیہ السلام) نے اس طرح ہی کیا۔ جس کے نتیجے میں پہاڑوں کی طرح ٹھہری ہوئی لہریں چل پڑیں۔ فرعون اور اس کے ساتھی غرق کردئیے گئے۔ اس طرح فرعون اور اس کے ساتھی مہکتے ہوئے باغ، جاری چشمے، لہلہاتی ہوئی کھیتیاں، پُرشکوہ محلات اور بیش بہا عیش وعشرت کا سامان چھوڑ کر سمندر میں غرق ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری قوم کو ان کا وارث بنایا اور ان کے ڈوب مرنے پر نہ زمین کو رونا آیا اور نہ ہی آسمان نے آنسو بہائے اور نہ ہی انہیں مہلت دی گئی۔ ان آیات میں فرعون کی ترقی اور ان کی عیش وعشرت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی بھی ان پر رونے کے لیے تیار نہ ہوا۔ جو لوگ فرعون اور اس کے وزیروں، مشیروں کی تعریفیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اور ان کے استقبال کے لیے پہروں کھڑے رہتے تھے اور فرعون کے سامنے سرجھکاتے تھے۔ ان میں ایک نفس بھی ایسا نہیں تھا جس نے افسوس کا اظہار کیا ہو۔ جس کے لیے یہ الفاظ کہے گئے کہ ان پر نہ زمین روئی اور نہ آسمان کو افسوس ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہونے کے ساتھ ہر زبان میں محاورہ بھی ہے کہ جب بدترین شخص دنیا سے جاتا ہے تو اس پر افسوس کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ جہاں تک قوم فرعون کے بعد مصر کی سرزمین کے وارث بننے والوں کا تعلق ہے اس میں اہل علم کے دو آراء ہیں۔ بے شک تاریخ سے بنی اسرائیل کا آل فرعون کے محلاّت اور باغات کا مالک ہونا ثابت نہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید نے یہاں دوسری قوم کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں لیکن سورۃ الشعراء میں کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ ہم نے آل فرعون کو غرق کیا اور بنی اسرائیل کو ان کے باغوں، چشموں اور محلّات کا مالک بنا یا۔ (الشعراء :59) اس وضاحت کے بعد تاریخ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ جب کہ تاریخی ریکارڈ تسلسل کے ساتھ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل فلسطین کے ساتھ مصر کے بھی مالک ہوئے اور انہیں وہ سب کچھ ملا جو آل فرعون کے پاس ہوا کرتا تھا۔ حضرت عمر (رض) کا بیت المقدس کی فتح کے موقع پر ان آیات کی تلاوت کرنا : حضرت عمر (رض) جب بیت المقدس شہر کے قریب پہنچے تو ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ القدس کا دلفریب منظر اور شاندار مکانات سامنے تھے۔ دل پر ایک خاص اثر ہوا۔ عبرت کے لہجہ میں یہ آیت پڑھی۔ ﴿کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَعُیُوْنٍ﴾ [ الدخان :25] مسائل: 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قبل از وقت بتلا دیا گیا کہ فرعون تمہارا تعاقب کرے گا۔ 2۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے رات کے وقت ہجرت کی۔ 3۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دوبارہ عصا مارنے پرسمندر کا پانی پہلے کی طرح ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ 4۔ فرعون اور اس کے ساتھی غرق کردئیے گئے۔ 5۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی امن و امان کے ساتھ سمندر پار کرگئے۔ 6۔ فرعون اور ان کے ساتھی اپنے باغات، بہتے ہوئے چشمے، لہلہاتی ہوئی کھیتیاں، بڑے بڑے محلات اور عیش وعشرت کا سامان چھوڑ کر سمندر میں غرق ہوئے۔ 7۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں پر کوئی ایک شخص بھی رونے کے لیے تیارنہ ہوا۔ 8۔ اللہ تعالیٰ نے مصر پر دوسری قوم کو اقتدار اور اختیار بخشا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ جسے چاہے زمین کا وارث بناتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حق کی تکذیب کرنے والوں کو ہلاک کر کے دوسری قوم کو وارث بنایا۔ (الانعام :6) 2۔ اے ایمان والو ! اگر تم دین سے مرتد ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ (المائدۃ :54) 3۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور نئی مخلوق لے آئے۔ یہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (ابراہیم : 19۔20) 4۔ اگر اللہ چاہے تو تم کو فنا کر کے دوسری مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے مشکل نہیں۔ (فاطر : 16۔17) 5۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ (النساء :123) 6۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہارے بعد جسے چاہے لے آئے۔ (الانعام :133)