إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ
(اور) مجرم لوگ جہنم میں ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
فہم القرآن: (آیت 74 سے 78) ربط کلام : جنتیوں کے انعامات کے مقابلے میں جہنمیوں کی سزائیں۔ جنتی جنت میں ہر قسم کی نعمتوں اور خوشیوں سے سرفراز ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے مقابلے میں جن پر فرد جرم ثابت ہوجائے گی وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کی آہ زاریوں کے باوجود ان پر عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا۔ وہ جہنّم سے نجات پانے میں مایوس ہوجائیں گے اور اسی مایوسی میں ہمیشہ مبتلا رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ جہنم کا عذاب ان کی اپنی زیادتیوں کا نتیجہ ہوگا۔ جہنمی جہنم کی اذیّت ناکیوں سے تنگ آ کر بالآخر جہنّم کے سردار فرشتے جس کا نام مالک ہے اس سے درخواست کریں گے کہ اے مالک! ہماری کوئی فریاد بھی قبول نہیں ہوئی اب آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے رب کے حضور ہماری طرف سے درخواست پیش کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری موت کا فیصلہ کردے۔ جہنمیوں کے جواب میں جہنمکا فرشتہ کہے گا کہ ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے مگر تم نے ہمیشہ حق سے کراہت کا اظہار کیا۔ ان الفاظ کے مفسرین نے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ پہلا مفہوم یہ ہے۔ ﴿ لَقَدْ جِئْنٰکُمْ بالْحَقِّ﴾ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے۔ اس سے مراد ملائکہ ہیں جو ملائکہ میں شامل ہونے کی وجہ سے وحی لانے والے فرشتے کی ترجمانی کریں گے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جہنمیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب دیا جائے گا کہ تم دنیا میں حق کی مخالفت کرتے رہے۔ جب کہ ہم نے تم تک حق پہنچا دیا تھا، لہٰذا اب تمہیں ہمیشہ کے لیے سزا بھگتنا ہوگی۔ دنیا میں انسان مایوس ہوجائے تو وہ خودکُشی کے ذریعے اپنی جان ختم کرلیتا ہے۔ مگر قیامت کے دن جہنّمی خود کشی بھی نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ موت کو موت دے دی جائے گی۔ ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن موت مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ابو کریب نے کچھ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ اسے جنت اور جہنم کے درمیان روک لیا جائے گا۔ پھر جنتیوں سے کہا جائے گا کیا تم اسے پہچانتے ہو تو وہ اسے پہچاننے کی کوشش کریں گے اور اس کی طرف دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں یہ موت ہے۔ جہنمیوں سے کہا جائے گا کیا تم اسے پہچانتے ہو وہ بھی پہچاننے کی کوشش کریں گے۔ اچھی طرح دیکھ کر کہیں گے ہاں یہ موت ہے پھر حکم ہوگا اور اسے ذبح کردیا جائے گا اسکے بعد اعلان ہوگا اے جنتیو! جنت میں ہمیشہ رہوتمہیں موت نہیں آئے گی۔ اے جہنمیو! جہنم میں ہمیشہ رہو تمھیں بھی موت نہیں آئے گی۔ پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت کی اور انہیں حسرت والے دن سے ڈرایئے جب فیصلہ کیا جائے گا۔ وہ غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لائیں گے۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ] مسائل: 1۔ مجرم ہمیشہ جہنّم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ 2۔ ان پر کبھی بھی عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی یہ لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ 4۔ جہنّی جہنّم سے نجات کے بارے میں مایوس ہوجائیں گے۔ 5۔ جہنّمی اس لیے جہنّم میں جائیں گے کیونکہ وہ حق کو ٹھکرایا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: جہنمیوں کی آہ و بکا اور فریادیں : 1۔ ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت دے ہم تیری دعوت قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم :44) 2۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ:12) 3۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر :37) 4۔ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون :107)