وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنكُم مَّلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ
اور اگر ہم چاہتے تو تم میں سے فرشتے پیدا کردیتے [٥٩] جو زمین میں تمہارے جانشین ہوتے۔
فہم القرآن: (آیت 60 سے 62) ربط کلام : اہل مکہ کے ایک اور اعتراض کا جواب۔ جس طرح فرعون نے اپنی قوم سے کہا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) پر اسے لیے بھی ایمان نہیں لاتا کہ اس کی معاونت کے لیے ملائکہ مقرر نہیں کیے گئے۔ اعتراض کی شکل میں اہل مکہ کا بھی یہ مطالبہ تھا کہ محمد (ﷺ) کی تائید میں ملائکہ مقرر کیوں نہیں کیے گئے۔ جس کا اس موقع پر یہ جواب دیا گیا کہ اگر ہم چاہیں تو زمین میں فرشتے تمہارے جانشین بنا دیں۔ دوسرے موقع پرکفار کے اعتراض کے یہ جواب دیئے گئے۔ ﴿قُلْ لَوْ کَانَ فِی الْأَرْضِ مَلَائِکَۃٌ یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَسُولًا﴾ [ بنی اسرائیل :95] ” اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ رسول بناتے۔“ ﴿وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَکًا لَقُضِیَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُونَ وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَا یَلْبِسُونَ﴾[ الانعام : 8، 9 ] ” اور انہوں نے کہا اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا ؟ اور اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے تو ضرور کام تمام کردیا جاتا، پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی۔ اور اگر ہم اسے فرشتے بناتے تو یقیناً اسے آدمی بناتے اور یہ اس پر وہی مغالطہ دیتے جو وہ معالطہ اب ڈال رہے ہیں۔“ (الانعام : 8، 9) یعنی یہ کہتے کہ ہم انسان میں ہمارے لیے انسان رسول کیوں نہ بھیجا گیا۔ جہاں تک عیسیٰ ( علیہ السلام) کی ذات کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قیامت کی نشانی بنایا ہے۔ لوگوں کی اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ اے رسول (ﷺ) ! لوگوں سے فرمادیں کہ بس میری اتباع کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید، نبی (ﷺ) کی رسالت اور قیامت کی نشانی کا ذکر فرماکر واضح کیا ہے کہ یہ عقیدہ اور سوچ صراط مستقیم ہے۔ لوگوں کو اس کے مطابق ہی چلنا چاہیے۔ اس لیے آپ (ﷺ) سے یہ بات کہلوائی گئی کہ لوگوں کو یہ بھی سمجھائیں کہ تمہیں شیطان صراط مستقیم سے نہ بہکائے اور پوری طرح جان لو ! کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (عَنْ أبی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُوشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہٗ أَحَدٌ حَتّٰی تَکُون السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! عنقریب تم میں عیسیٰ ابن مریم عادل حکمران کی حیثیت میں آئیں گے۔ صلیب کو توڑ دیں گے۔ خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے اور جزیہ ختم کریں گے مال ودولت کی اس قدر بہتات ہوگی کوئی اس کو لینے والا نہ ہوگا یہاں تک کہ ایک سجدہ کرنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔“ مسائل: 1۔ اگر زمین میں بسنے والے فرشتے ہوتے تو اللہ تعالیٰ کسی فرشتے کو نبی منتخب کرتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو قیامت کی نشانی بنایا ہے اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ 3۔ لوگوں کو شیطان کے پیچھے چلنے کی بجائے صراط مستقیم پر چلنا چاہیے۔ 4۔ شیطان لوگوں کا کھلادشمن ہے۔ تفسیر بالقرآن: شیطان کی لوگوں کے ساتھ دشمنی : 1۔ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ (البقرۃ :168) 2۔ شیطان کی رفاقت کا بدترین انجام ہوگا۔ (الفرقان :29) 3۔ شیطان بے وفائی کرتا ہے۔ (الحشر :16) 4۔ شیطان بدترین ساتھی ہے۔ (النساء :38) 5۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ دشمنی کی۔ (الاعراف : 20تا23) 6۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (یوسف :5)