أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
کیا آپ پر تیرے رب کی رحمت کو تقسیم کرنے والے [٣١] یہ لوگ ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کا سامان زیست ان کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور کچھ لوگوں کو دوسروں پر بدرجہا فوقیت بھی دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں اور آپ کے پروردگار کی رحمت [٣٢] اس چیز سے بہتر ہے کہ جو یہ جمع کر رہے [٣٣] ہیں
فہم القرآن : ربط کلام : اہل مکہ کا اعتراض تھا کہ نبوت کسی مالدار شخص کو ملنی چاہیے تھی ان کے جواب میں دولت اور نبوت میں فرق بتلایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان سماجی، سیاسی اور معاشی تفاوت اس لیے قائم فرمایا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کی ضرورت محسوس کریں اور دنیا کا نظام چلتا رہے۔ اے نبی (ﷺ) ! یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو عزت و احترام، مقام اور شان آپ کو عطا فرمایا ہے وہ اس سے کروڑہاگنا بہتر ہے جو کچھ یہ لوگ کماتے اور جمع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان جو تفاوت قائم فرمایا ہے اس کی بنیادی حکمت اور مقصد یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھیں۔ اسی اصول کے پیش نظر بادشاہ کو وزیروں، مشیروں اور انتظامیہ کی ضرورت ہے۔ وزیر، مشیر اور انتظامیہ بادشاہ کے ساتھ تعلق رکھنے میں مجبور ہیں۔ کارخانے دار کو مزدور کی ضرورت ہے۔ مزدور کارخانے میں کام کیے بغیر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے۔ لینڈ لارڈ زرعی آلات رکھنے کے باوجود مزارع اور مزدور کے بغیر زمیندارا نہیں کرسکتا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ متحدہ پاکستان کے دور میں پاکستان دو صوبوں پر مشتمل تھا، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان اسے پاکستان کہا جاتا تھا۔ جس کا موجودہ پاکستان ایک صوبہ تھا۔ 1958ء سے لے کر 1966ء تک اس کا گورنر نواب آف کالا باغ تھا۔ جو بڑا منتظم اور سخت گورنر شمار ہوتا تھا۔ اس کے دور میں پشاور شہر کے خاکروبوں نے ہڑتال کی۔ شہر کے میئر اور صوبائی وزراء نے خاکروبوں سے بار بار مذاکرات کیے لیکن خاکروبوں نے یہ شرط پیش کی کہ جب تک صوبائی گورنر ہمارے مطالبات تسلیم کرنے کی براہ راست گارنٹی نہیں دیتے اس وقت تک ہم ہڑتال ختم نہیں کریں گے اس دور میں فلش سسٹم کا نیٹ ورک جامع اور شہر کی ضرورت کے مطابق نہیں تھا۔ خاکروبوں کی ہڑتال طول پکڑ گئی جس وجہ سے شہر میں شدید تعفن پیدا ہوا اور کئی قسم کی بیماریوں نے شہریوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ شہر کے لوگوں نے مجبور ہو کر گورنر سے اپیل کی کہ وہ پشاور تشریف لا کر خاکروب حضرات سے مذاکرات کریں تاکہ شہر میں صفائی کا نظام بحال ہو سکے لیکن گورنر نے یہ مطالبہ مسترد کردیا۔ ہڑتال کو زیادہ دن ہوئے تو پشاور میں وباء نے شدت اختیار کرلی جس وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہسپتالوں میں داخل ہوئے جس سے مجبور ہو کر میر محمد خان پشاور گئے اور خاکروبوں کے مطالبات تسلیم کیے تب جا کر شہریوں نے سکھ کا سانس لیا۔ بظاہر ایک شہر کا واقعہ ہے لیکن یہ اس حقیقت کا ترجمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے کا محتاج بنایا ہے۔ باہمی ضرورت اور مفاد کے تحت بڑے اور ترقی یافہ ممالک چھوٹے ملکوں کے رابطہ رکھنے پر مجبور ہیں۔ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ لوگ بقائے باہمی کی بنیاد پر آپس میں رابطہ رکھیں اور بحیثیت انسان ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنی رحمت کا مالک ہے اور وہی لوگوں پر رحمت نازل فرمانے والا ہے۔ 2۔ یہاں رحمت سے پہلی مراد نبوت ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے نبوت عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی حضرت محمد (ﷺ) کو خاتم النّبیّین بنایا ہے۔ 3۔ یہاں رحمت سے دوسری مراد دنیا کی خوشحالی ہے بشرطیکہ خوشحال شخص صاحب ایمان اور صالح اعمال کرنے والا ہو۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وسائل کے بارے میں لوگوں کے درمیان ایک فرق رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن : دنیا کے مال کی حیثیت : 1۔ جو چیز تم دیے گئے ہو یہ تو دنیا کا سامان اور زینت ہے۔ (القصص :60) 2۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر کھیل تماشا۔ (العنکبوت :64) 3۔ مال اور اولادتمہارے لیے فتنہ ہے۔ (التغابن :15) 4۔ کفار کے مال واولاد ہرگزان کے کام نہ آسکیں گے۔ (آل عمران :10) 5۔ جو چیز تم دیے گئے ہو یہ تو دنیا کا سامان اور زینت ہے۔ (القصص :60) 6۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف :46) 7۔ دنیا آخرت کے مقابلہ میں بہت کمتر ہے۔ (التوبۃ:38)