سورة الزخرف - آیت 26

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا : جن کی تم بندگی کرتے ہو، میں [٢٤] ان سے قطعاً بیزار ہوں

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 26 سے 28) ربط کلام : جس طرح ہر قوم کے حکمران اور امیر لوگوں نے اپنے رسول کی مخالفت کی اور اپنے آباء و اجداد کے رسم ورواج پر قائم رہے۔ اسی طرح ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد اور ان کی قوم باطل عقیدہ اور اپنے رسم ورواج پر قائم رہے۔ اہل مکہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کا وارث سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) بھی اسی طریقہ سے اپنے رب کی عبادت کرتے تھے جس انداز میں ہم عبادت کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے مختلف الفاظ میں اس بات کی تردید کی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا شرکیہ عقیدہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی ان کا مشرکین کے ساتھ کوئی واسطہ تھا وہ صرف اور صرف زمین و آسمان کے رب کی عبادت کرنے والے اور اسی کی طرف لوگوں کو بلانے والے تھے اور اپنے عقیدہ میں یکسو تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے توحید کی دعوت اپنے والد کے سامنے پیش فرمائی اور اپنی قوم کو باربار سمجھایا کہ اے میری قوم! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان سے لاتعلق ہوں۔ میں تو صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری راہنمائی کرتا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) یہی عقیدہ اور دعوت اپنی اولاد میں چھوڑ کرگئے تاکہ ان کی اولاد ہر حال میں اپنے رب کی عبادت کرے اور اس کی طرف رجوع کرتی رہے۔ اے اہل مکہ تم اپنے آپ کو ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سمجھتے ہو اور ان کی ملت کے دعوے دار ہو۔ لہٰذا تمہیں نبی (ﷺ) کی دعوت کو قبول کرنا چاہیے کیونکہ آپ (ﷺ) اسی بات کی دعوت دیتے ہیں لیکن تم اس طرح ہی مخالفت کر رہے ہو جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ، اس کی قوم اور حکمران طبقہ نے کی تھی۔ ﴿وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰھٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ اِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْن اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْن وَ وَصّٰی بِھَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِیْہِ وَ یَعْقُوْبُ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَ اِلٰہَ اٰبَآءِکَ اِبْرَھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدًا وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ﴾ [ البقرۃ: 130تا133] ” دین ابرہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جس نے اپنے آپ کو بے وقوف بنا لیا ہے۔ بلا شک ہم نے ابراہیم کو دنیا میں چن لیا اور آخرت میں بھی وہ صالحین میں سے ہوں گے۔ جب اسے اس کے رب نے فرمایا کہ فرمانبردار ہوجاؤ اس نے عرض کی میں نے اپنے اپ کو رب العالمین کے سامنے جھکا دیا ہے۔ ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ اے میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمایا لیا ہے تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں آنی چاہیے۔ کیا تم یعقوب کی موت کے وقت موجود تھے؟ جب اس نے اپنی اولاد کو فرمایا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ سب نے جواب دیا کہ تیرے معبود کی اور تیرے آباء ابراہیم، اسماعیل، اور اسحاق کے معبود کی جو ایک ہی معبود ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔“ مسائل : 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کے عقیدے سے برأت کا اعلان کیا تھا۔ 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں کے طریقہ کے مطابق اللہ کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ 3۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہمیشہ خالق حقیقی کی طرف لوگوں کو بلایا۔ 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو توحید کی دعوت دی اور اسی عقیدے پر پکے رہنے کی تلقین فرمائی۔ تفسیر بالقرآن : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ اور دعوت : 1۔ حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔ (العنکبوت :16) 2۔ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ اے میری قوم! میں تمہارے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ (الانعام :79) 3۔ مشرکین نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے آگ کا الاؤ جلایا اور انہیں آگ میں ڈال دیا۔ ( الصّٰفّٰت :97)