سورة آل عمران - آیت 142

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے جبکہ ابھی تک اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں [١٢٩] اور صبر کرنے والے کون ہیں؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 142 سے 143) ربط کلام : آزمائش سے قوموں کے کردار میں پختگی پیدا ہوتی ہے احد کی عارضی شکست اسی سلسلہ کی کڑی سمجھنا چاہیے۔ دنیا کی یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ آدمی کا مقصد جتنا بلند اور اہم ہوتا ہے اتنی ہی وہ محنت اور اس کے لیے تکلیف اٹھاتا ہے۔ مومن کی زندگی کا مقصد دین کو سر بلند کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنا ہے جس کا ما حصل جنت ہے۔ یہ مقصد عظیم خالی دعوؤں اور کھوکھلے نعروں سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے مال لٹانا، پیٹ پر پتھر باندھنا‘ گھر بار چھوڑنا‘ اولاد قربان کرنا اور جسم کٹواتے ہوئے صابر و شاکر رہنا پڑتا ہے تب جا کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ممکن ہوا کرتا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے (حُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بالْمَکَارِہِ) ” کہ جنت مصائب اور مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق] اب یہاں ایک لطیف سرزنش کے ساتھ مسلمانوں کو باور کروا یا جا رہا ہے کہ تم خود ہی تو موت کی تمنا کر رہے تھے۔ یعنی جو لوگ کسی وجہ سے بدر کے معرکہ میں شامل نہ ہو سکے وہ تمنا کرتے تھے کہ کفار کے ساتھ پھر کب لڑائی ہو جس میں ہم اللہ کے راستے میں کٹ مریں۔ جب احد میں موت سے تمہارا آمنا سامنا ہوا اور کچھ لوگ موت کا لقمہ بنے تو تم اس پر حیرانگی کا اظہار کر رہے ہو کہ ہمیں یہ جانی نقصان کیوں اٹھانا پڑا؟ یہاں موت کی تمنا سے مراد شہادت ہے۔ جو مومن کی منزل مقصود اور جنت کے حصول کا مؤثر زینہ ہے کیونکہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد ] مسائل : 1۔ صبر اور جہاد کے بغیر کوئی ایماندار جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ 2۔ قتال فی سبیل اللہ میں مجاہد موت کو اپنے قریب دیکھتا ہے۔ نوٹ : صبر کی فضیلت کے بارے میں البقرۃ آیت 153 کی تفسیر بالقرآن دیکھیں۔