فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا [٦٥] ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے : مجھے تو یہ چیز علم [٦٦] (اور تجربہ) کی بنا پر حاصل ہوئی ہے (بات یوں نہیں) بلکہ یہ ایک آزمائش [٦٧] ہوتی ہے مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں۔
فہم القرآن: (آیت49سے51) ربط کلام : جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ جب انہیں دنیا میں تکلیف پہنچتی تھی تو صرف ایک رب کو پکارتے تھے اور جب انہیں کوئی نعمت دی جاتی تھی تو وہ کہتے تھے کہ یہ ہماری فہم وفراست کا نتیجہ ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ” اللہ“ کو یاد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب اس کی تکلیف رفع کردیتا ہے اور اسے اپنی نعمت سے نوازتا ہے تو پھر وہ سمجھتا اور بعض مرتبہ زبان سے بھی کہتا ہے کہ یہ تو میری قابلیت کا نتیجہ ہے۔ بیماری کے بعد صحت کے بارے میں کہتا ہے کہ بروقت اور مناسب علاج کی وجہ سے صحت یاب ہوا ہوں۔ تونگری کے بارے میں برملا اظہار کرتا ہے کہ یہ میری منصوبہ بندی اور محنت کا صلہ ہے۔ منصب اور اقتدار حاصل ہو تو اپنی ذہانت اور سیاست کی بات کرتا ہے۔ اگر کہیں اللہ کا ذکر کرتا ہے تو بڑی بے توجہگی کے ساتھ اور رواجی طور پر کرتا ہے۔ اس میں شکر کا فقدان ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین بروقت علاج اور ہر کام میں توجہ اور محنت کا حکم دیتا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مومن اسباب کی بجائے مسبب الاسباب پر نظر رکھتا ہے اور پورے خلوص کے ساتھ ذکر اور اس کا شکر کرتا ہے۔ مومن کے مقابلے میں دنیا پرست اپنی لیاقت اور اسباب پر بھروسہ کرتا ہے۔ کلمہ پڑھنے والا مشرک درباروں اور کافربتوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کے طفیل ملا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی آزمائش کی جاتی ہے۔ لیکن ان کی توجہ اس کی طرف مبذول نہیں ہوتی۔ اس جہالت اور سوچ کا پہلے لوگ بھی اظہار کرتے تھے جس کا اظہار مکہ والے کررہے ہیں۔ ان سے پہلے ظالموں نے جو کچھ کمایا اس کا انہیں کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ان لوگوں کو بھی اپنے کیے کا وبال بھگتنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کو کسی معاملہ میں کوئی عاجز نہیں کرسکتا۔ مسائل: 1۔ انسان تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور خوشی کے وقت اسے بھول جاتا ہے۔ 2۔ اکثر مال دار یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی محنت اور لیاقت کی وجہ سے ان کو مال دیا گیا ہے۔ 3۔ مال آزمائش ہے لیکن اکثر لوگ اس آزمائش کو نہیں جانتے۔ 4۔ پہلے لوگ بھی اپنے مال پر اتراتے تھے جب ان پر عذاب نازل ہوا تو ان کا مال کسی کام نہ آیا۔ 5۔ مکہ والے بھی مال و اسباب پر اتراتے ہیں۔ عنقریب یہ اپنے کیے پر پکڑے جائیں گے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی کسی طرح بھی مجبور نہیں کرسکتا۔ تفسیربالقرآن: دولت کے منفی اثرات : 1۔ مال اور اولاد انسان کے لیے آزمائش ہیں اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن :15) 2 مال ودولت اور دنیا کی زندگی انسان کے لیے آزمائش ہے۔ (طٰہ :131) 3۔ لوگوں کو مال اور اولاد کی کثرت نے ہلاک کردیا۔ (التکاثر :1) 4۔ قوم عاد نے زمین میں تکبر کیا اور کہا کہ ہم سے طاقت میں کون زیادہ ہے۔ (حٰم السجدۃ:15)