اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرا نہ ہو اس کی روح نیند کی حالت میں قبض کرلیتا ہے پھر جس کی موت کا فیصلہ ہوچکا ہو اس کی روح کو تو روک لیتا ہے اور دوسری روحیں ایک مقررہ وقت تک کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں بہت سی [٥٨] نشانیاں ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (ﷺ) کو کسی شخص کی ہدایت کا ذمہ دار نہیں بنایا۔” اللہ“ ہی ہدایت اور گمراہی کا مالک ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ ہدایت وگمراہی کا مالک ہے اسی طرح ہی وہ لوگوں کی موت وحیات پر بھی اختیار رکھتا ہے۔ اس نے موت وحیات کا سلسلہ اس لیے بنایا ہے تاکہ لوگ اپنے انجام کے بارے میں غوروفکر کریں۔ اللہ ہی روحوں کو موت دیتا ہے۔ جن کی موت کا وقت نہیں آتا ان کو ان کی نیند کے بعد لٹا دیتا ہے۔ نیند اور بیداری کے عمل سے گزرتے ہوئے انسان کی زندگی پوری ہوجاتی ہے۔ جب اس کی زندگی پوری ہوجاتی ہے یعنی اس کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کی روح کو قبض کرلیا جاتا ہے۔ اگر انسان نیند اور بیداری کے عمل پر غور کرے تو رب تعالیٰ کو پہنچاننے کے لیے یہی دلیل کافی ہے۔ اسی لیے فرمایا ہے کہ غور کرنے والوں کے لیے اس میں راہنمائی کے بہت سے دلائل ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ہدایت اور گمراہی کی بات کی ہے اس لیے یہاں جسمانی موت کے ذکر میں روحانی موت کی طرف بھی اشارہ ہے۔ ہدایت یافتہ انسان روحانی یعنی ایمانی پرزندہ ہے اور گمراہ شخص روحانی طور پر مردہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نیند کو موت کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ نیند اور موت میں کافی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے۔1 ۔جس طرح موت کے بعد انسان کو اپنے آپ اور گردوپیش کا علم نہیں ہوتا اسی طرح گہری نیند سونے والے کو اپنے آپ اور اردگرد کے ماحول کی خبر نہیں ہوتی۔ 2 ۔جس طرح موت کے بعد انسان کا عمل ختم ہوجاتا ہے اسی طرح سونے والے کا عمل بھی رک جاتا ہے۔ 3 ۔جس طرح موت کے بعد انسان اپنا دفاع نہیں کرسکتا اسی طرح نیند کے دوران آدمی اپنا دفاع نہیں کرسکتا۔ 4 ۔جس طرح موت کے بعد آدمی سننے، دیکھنے اور پکڑنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح گہری نیند میں آدمی ایک حد تک سننے، دیکھنے اور پکڑنے کی طاقت سے محروم ہوجاتا ہے۔5 ۔جس طرح فوت شدہ آدمی بے بس اور دنیا سے لاتعلق ہوتا ہے اسی طرح گہری نیند سونے والا بھی بے بس اور کچھ وقت کے لیے دنیا سے لاتعلق ہوجاتا ہے۔ 6 ۔جس طرح مرنے والے کی ر وح کو کوئی واپس نہیں لا سکتا اسی طرح سونے والے کی روح کو بھی اللہ کے سوا کوئی واپس نہیں لٹا سکتا۔ اسی لیے نیند کے لیے ” یَتَوَفَّی“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنٰی ہے پورا پورا لینا۔ ان وجوہات کی بنا پر نیند کو موت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ میڈیکل سانئس اس نقطہ پر نہیں پہنچ پائی لیکن قرآن مجید اور حدیث شریف کے الفاظ سے اشارہ ملتا ہے۔ کہ نیند کے دوران ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب انسان کی روح حقیقتاً اس کے جسم سے نکلتی جاتی ہے۔ (اللہ اعلم) نیند کے بے شمار فوائد میں ایک فائدہ کی طرف توجہ فرمائیں اور غور کریں کہ انسان کا جسم تھکاوٹ سے چکنا چور ہوچکا ہو۔ جوں ہی نیند اسے اپنی آغوش میں لیتی ہے تو تھکاوٹ دور اور طبیعت تازہ ہی نہیں بلکہ پہلے کی طرح آدمی کی انرجی بحال ہوجاتی ہے۔ سب سے بڑی حقیقت سمجھنے والی یہ ہے۔ جو رب انسان کو نیند سے اٹھاتا ہے وہی قیامت کے دن اسے اٹھائے گا۔ سونے کی دعا : عَنْ حُذَیْفَۃَ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) اِذَا اَخَذَ مَضْجِعَہُ مِنَ اللَّیْلِ وَضَعَ یَدَہُ تَحْتَ خَدِّہٖ ثُمَّ یَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ بِاِسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْییٰ وَاِذَا اسْتَیْقَظَ قَالَ (الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ) [ بخاری :کتاب الدعوات] حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں جب رات کو نبی کریم (ﷺ) اپنے بستر پر لیٹتے تو اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے اور یہ دعا کرتے۔” الٰہی! تیرے نام کے ساتھ مرتا ہوں اور اسی کے ساتھ زندہ ہوتا ہوں۔“ اٹھنے کے بعد پڑھتے ” تمام تعریفوں اور شکرانوں کے لائق اللہ تعالیٰ ہے جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔“ (بخاری) مزید دعائیں حدیث کی کتب میں ملاحظہ فرمائیں اور یاد کریں۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو موت دینے والا ہے۔ 2۔ نیند میں موت کا سبق پوشیدہ ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو نیند کی صورت میں مارتا اور بیداری کی صورت میں زندگی دیتا ہے۔