أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کافی نہیں؟ اور یہ لوگ آپ کو ان سے ڈراتے ہیں جو اس کے سوا [٥٢] ہیں۔ اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
فہم القرآن: (آیت36سے37) ربط کلام : حق کی تصدیق اور تبلیغ کرنے والوں کے لیے آخرت کے اجر کے ساتھ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دستگیری کا اعلان۔ حق بات کو قبول اور اس کا پرچار کرنا بالخصوص توحید باری تعالیٰ کا پرچار کرنا ہمیشہ سے مشکل ترین کام رہا ہے۔ جس شخص نے بھی توحیدِباری تعالیٰ کا پرچار کرنے کی کوشش کی۔ کفر و شرک کے دلدادہ لوگوں نے اس کا جینا دوبھر کردیا۔ اس راستے میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا انبیائے کرام (علیہ السلام) کو کرنا پڑا۔ مشرکین نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جسمانی اذّیتوں میں مبتلا کرنے کے ساتھ انہیں اعصابی اور فکری طور پر توڑے دینے کی کوشش کی۔ ” اللہ“ کی توحید کا پرچار اور حق کے ابلاغ میں سب سے زیادہ تکلیفیں رسول کریم (ﷺ) کو پہنچائیں گئیں۔ جسمانی اور ذہنی تکالیف کے ساتھ آپ (ﷺ) کو یہ کہہ کر دبانے کی کوشش کی گئی کہ اگر تو نے ہمارے خداؤں کی مخالفت جاری رکھی تو یہ تجھے تہس نہس کردیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (ﷺ) کو ضمانت دی ہے۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟ ہجرت کے وقت جب آپ (ﷺ) اور ابوبکر صدیق (رض) غار ثور میں تھے تو کفار تلاش کرتے کرتے غار کے دہانے پر پہنچ گئے حضرت ابوبکر (رض) گھبراکر کہنے لگے اللہ کے نبی (ﷺ) وہ تو یہاں بھی پہنچ گئے ہیں آپ نے فرمایا ابوبکر گھبراؤ نہیں ” اللہ“ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کا دوسرا معنٰی یہ ہے کہ میرے نبی کی مخالفت کرنے والو! تم ایڑی چوٹی کا زور لگا لو۔ تم نہ میرے نبی کو گزند پہنچا سکتے ہو اور نہ ہی دین حق کو دبا سکتے ہو۔ تمہاری مخالفت کرنا انوکھی بات نہیں۔ یہ شروع سے ہوتا آرہا ہے کہ مشرک حق والوں کو اپنے معبودوں سے ڈراتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈرانے والے گمراہ ہوتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے اللہ تعالیٰ ہدایت پر قائم رکھے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔ ہر کسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بدلہ لینے میں پوری طرح غالب ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے داعی اور حق کے مبلغ کو ہدایت پر قائم رہنے کی ضمانت دی ہے۔ آپ (ﷺ) کی دعا : (یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات] ” اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔“ مسائل: 1۔ ١ للہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے بندے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈرانے والے گمراہ ہوتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ جسے گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ جسے ہدایت پر قائم فرمائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن: مشرکین کا انبیاء ( علیہ السلام) کو ڈرانا : 1۔ مشرکوں کی حضرت نوح (علیہ السلام) کو دھمکی اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کردیا جائے گا۔ (الشعراء :116) 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے کہا اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کردوں گا۔ (مریم :46) 3۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی۔ ( المؤمن :26) 4۔ شعیب (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دھمکیاں دیں۔ (ھود :91) 5۔ فرعون کی ایمانداروں کو دھمکیاں کہ میں تمھارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دوں گا اور تمھیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دوں گا۔ (طٰہٰ :71) 6۔ مشرکوں کی حضرت لوط (علیہ السلام) کو دھمکی کہ اگر تو باز نہ آیا تو تمھیں شہر بدر کردیں گے۔ (الشعراء :167) 7۔ مشرکوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تجھے اور تجھ پر ایمان لانے والوں کو شہر سے نکال دیں گے۔ (الاعراف :88) 8۔ یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی چڑھانے کی کوشش کی۔ (النساء :157) 9۔ کفار نے رسول اللہ (ﷺ) کو قتل کرنے کی سازش کی۔ (الانفال :30)