ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے۔ ایک شخص چند بدسرشت اور اپنے حق کے لئے باہم جھگڑنے [٤٤] والوں کا غلام ہے اور دوسرا صرف ایک ہی آدمی کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں غلاموں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے؟ الحمد [٤٥] للہ لیکن اکثر لوگ یہ بات جانتے نہیں
فہم القرآن: ربط کلام : قرآن مجید میں بیان کی گئی امثال میں سے ایک مثال۔ قرآن مجید کی پہلی اور بنیادی دعوت ” اللہ“ کی ذات اور اس کی صفات کا شعور حاصل کرنا اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنا ہے اس لیے توحید کو مختلف انداز اور امثال کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔ مشرک اور موحد کے درمیان فرق سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو آدمیوں کی مثال دی ہے۔ ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو کئی آقاؤں کا زر خرید غلام ہے۔ جو مختلف مزاج رکھنے والے اور ایک دوسرے سے بڑھ کر بد اخلاق ہیں۔ اس غلام کو ایک مالک اپنی طرف بلاتا ہے اور دوسرا اپنے پاس آنے کا حکم دیتا ہے۔ ایک آقا اپنی مرضی کا کام دیتا ہے اور دوسرا اس کے الٹ ڈیوٹی لگاتا ہے۔ اس غلام کی بے بسی اور مظلومیت کا کون تصور کرسکتا ہے کہ جو ایک قدم آگے بڑھانے پر مجبور ہے اور دوسرا قدم پیچھے کی طرف اٹھانے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ جائے تو کہاں جائے حکم مانے تو کس کا مانے۔ گویا کہ وہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جس کا صرف ایک ہی مالک ہے جو نہایت ہی خیر خواہ اور بہت مہربان ہے وہ اسے حکم دیتے ہوئے اس کی طبیعت اور استعداد کا خیال رکھتا ہے۔ کیا یہ دونوں غلام برابر ہوسکتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ کوئی ادنیٰ عقل رکھنے والا شخص بھی انہیں ایک جیسا نہیں کہہ سکتا۔ اسی لیے موحد کو حکم فرمایا کہ وہ اپنے رب کا شکر ادا کرے جس نے اسے صرف اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیا اور اس کو دردر کی ٹھوکروں سے بچا لیا۔ اور توحید کے ایسے دلائل دیئے کہ جو ہر دورکے مشرک کو لاجواب کردیتے ہیں لیکن مشرک اس قدر حقیقی علم سے بے خبر ہوتا ہے کہ وہ دو غلاموں کا فرق سمجھنے اور اس سچائی کو جاننے کے باوجود صرف اللہ کی بندگی اور بہت سے خداؤں کی بندگی میں فرق کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی مشرک اور موحد کا فرق ہے۔ موحد کا عقیدہ ہے کہ میرا رب میری طاقت سے زیادہ مجھ پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت اور خیر خواہی ہوتی ہے جس بنا پر موحّد عُسر اور یسر، خوشی اور غمی میں اپنے رب پر راضی رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرک نہ اپنے رب کے حکم کی اتباع کرتا ہے اور نہ ہی اس کے فیصلوں پر راضی ہوتا ہے رب کا حکم ہے کہ میرے سوا کسی کی بندگی نہ کی جائے اور نہ میرے حکم کے خلاف کسی کا حکم تسلیم کیا جائے۔ مشرک نہ اپنے رب کے فیصلوں پر راضی ہوتا ہے اور نہ اس کے حکم کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ ایک رب کی عبادت کرنے کی بجائے جگہ جگہ ٹکریں مارتا پھرتا ہے۔ ایک مالک کا حکم ماننے کی بجائے کبھی کسی ڈکیٹر کا حکم مانتا ہے اور کبھی جمہوریت کو حاکم اعلیٰ تسلیم کرتا ہے۔ وہ ایک رسول کی اطاعت کرنے کی بجائے جو حقیقتاً اللہ کی اطاعت ہے کئی اماموں اور بزرگوں کی اطاعت کا دم بھرتا ہے۔ کیا ” اللہ“ اور اس کے رسول کی تابعداری بہتر ہے یا کئی خداؤں اور بہت سے اماموں کی تابعداری بہتر ہے ؟ پھر سوچ لیجیے کہ دونوں میں کون بہتر ہے ؟ لیکن مشرک اس حقیقت کو پانے کے لیے تیار نہیں۔ مسائل: 1۔ کیا ایک کی غلامی بہتر ہے یا کئی آقاؤں کی غلامی بہتر ہے؟ 2۔ کیا ایک الٰہ کا بندہ بننا اور اس کی عبادت کرنا بہتر ہے یا کئی خداؤں کا بندہ بننا اور ان کے سامنے جھکنا بہتر ہے؟ 3۔ کیا حاکم حقیقی کا حکم ماننا بہتر ہے یاکسی ڈکٹیٹر اور جمہوریت کو حاکم اعلیٰ تسلیم کرنا بہتر ہے ؟ 4۔ کیا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت بہتر ہے یا درجنوں خداؤں، کئی اماموں اور پیروں کی تابعداری بہتر ہے ؟ 5۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جس نے انسان کو صرف اپنی بندگی کا حکم دیا ہے۔ 6۔ لوگوں کی اکثریت حقائق جاننے اور انہیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن: قرآن کی امثال : 1۔ ایک غلام کے دو مالک ہوں تو؟۔ (الزمر :29) 2۔ ناکارہ اور کار آمد غلام کی مثال۔ (النحل :76) 3۔ مشرک کی تباہی کی مثال۔ (الحج :31) 4۔ باطل معبودوں اور مکھی کی مثال۔ (الحج :73) 5۔ دھوپ اور سایہ کی مثال۔ (فاطر :21) 6۔ اندھیرے اور روشنی کی مثال۔ (فاطر :20) 7۔ اندھے، دیدے، بہرے اور سننے والے کی مثال۔ (ھود :24)