أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
بھلا جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول [٣٣] دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشنی [٣٤] پر ہو (اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو کوئی سبق نہیں لیتا) لہٰذا ان لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر سے (اور) سخت [٣٥] ہوجاتے ہیں۔ یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : جس طرح بارش کا پانی جذب کرنے کے بعد زمین گل و گلزار اگاتی ہے اسی طرح ہی جو شخص ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور وہ اسلام کی روشنی میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اسلام کی پہلی دعوت ” اللہ“ کی ذات اور اس کی صفات پر اسی طرح ایمان لانا ہے جس طرح اس کا حکم اور تقاضا ہے۔ جو شخص توحید کے تقاضے پورے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دیتا ہے جس بنا پر اس کے سینے میں ہدایت کا نور پیدا کردیتا ہے۔ ایسا شخص بڑی سے بڑی مصیبت میں اپنے رب پر راضی رہتا ہے۔ اسے غیر معمولی کا میابی اور خوشی نصیب ہوتی ہے تو بھی اپنے آپ سے باہر نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جس کا دل کفر و شرک اور گناہوں کی وجہ سے سخت ہوگیا ہو۔ اسے نصیحت کی جائے تو وہ اس سے چڑتا ہے۔ اللہ کی توحید کا تذکرہ ہو تو اس سے بد کتا ہے۔ اس قسم کے لوگ راہ راست سے اس قدر بھٹک جاتے ہیں کہ ان کی گمراہی میں رتی بھربھی شک باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ ان کے دل اس قدر سخت ہوجاتے ہیں کہ ان پر کوئی نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہ بدقسمتی اور نافرمانی کا وہ درجہ ہے۔ جس کے بارے میں قرآن مجید نے بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دیتا ہے اور ان کی آنکھوں پر گمراہی کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ قیامت کے دن ان کے لیے عظیم عذاب ہوگا۔ ( البقرہ :7)