سورة آل عمران - آیت 113

لَيْسُوا سَوَاءً ۗ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ اہل کتاب بھی سارے ایک جیسے نہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو حق پر قائم رہنے والے ہیں۔ وہ دن رات اللہ کی آیات پڑھتے اور سجدہ ریز ہوتے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 113 سے 115) ربط کلام : اہل کتاب سارے ایک جیسے نہیں اور نہ ہی تمام پر ذلت اور پھٹکار ہوگی۔ ان میں وہ مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے اور نیکی کا حکم دینے والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ ان سے مراد وہ بھی اہل کتاب ہوسکتے ہیں جو نبی اکرم سے پہلے تورات، انجیل پر عمل کرتے تھے اور آپ کی بعثت سے پہلے فوت ہوگئے۔ یہاں ان لوگوں کو اللہ کی پھٹکار اور ذلت و رسوائی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جو اہل کتاب میں سے رسول معظم (ﷺ) پر ایمان لائے اور امّتِ خیر کے وصف سے متّصف ہوئے۔ انہیں مسلمانوں میں شامل کرتے ہوئے امت کے لفظ سے یاد فرمایا ہے کہ یہ لوگ رات کی تاریکیوں میں اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی آیات کی تلاوت کرتے اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھنے کے ساتھ ان کے دل فکر آخرت سے لرزاں رہتے ہیں‘ نیکی کا حکم دینے‘ برائی سے منع کرنے‘ ہر کار خیر میں آگے بڑھنے والے اور صالحین میں شامل ہیں اور جو کوئی بھی نیکی کا طلب گار اور ان اوصاف کا حامل ہوگا وہ امیر ہو یا غریب‘ چھوٹا ہو یا بڑا‘ اس کے صالح اعمال کی ہرگز ناقدری نہیں ہونے پائے گی۔ نجاشی شاہ حبشہ جس کا نام اصحمہ جو اہل کتاب میں سے تھا۔ اس نے مسلمانوں کی اس وقت بھرپور حمایت کی جب مسلمان ہجرت کر کے حبشہ پہنچے اور قریش مکہ کا ایک وفد انہیں واپس لانے کے لیے شاہ حبشہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شاہ نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو واپس نہیں کیا اور انہیں پناہ دی بلکہ برملا اعتراف کیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم علیہا السلام کے معاملہ میں مسلمانوں کے عقائد بالکل درست اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا۔ اور مسلمان ہوگیا جب وہ فوت ہوا تو رسول اللہ (ﷺ) نے مسلمانوں کو اس کی وفات پر مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھو۔ چنانچہ اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب الصفوف علی الجنازۃ۔۔] عبداللہ بن سلام یہود کے ممتاز علماء میں سے تھے لیکن مفاد پرست اور جاہ طلب ہونے کی بجائے حق پرست تھے۔ جب آپ (ﷺ) ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور عبداللہ بن سلام نے آپ میں وہ نشانیاں دیکھیں جو تورات میں نبی آخر الزماں (ﷺ) کی بتلائی گئی تھیں تو چند سوالات پوچھنے کے بعد اسلام لے آئے۔ اس نے رسول محترم (ﷺ) کو یہود کی سرشت سے آگاہ کیا‘ چنانچہ یہود ان کے دشمن بن گئے۔ بعد ازاں زنا کے ایک مقدمہ میں یہود نے تورات سے رجم کی آیت کو چھپانا چاہا تو عبداللہ بن سلام (رض) نے ہی اس آیت کی نشاندہی کر کے یہود کو نادم اور رسوا کیا تھا۔ [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الحدود، باب فی رجم الیہودیین] عبداللہ بن سلام (رض) کو ایک خواب آیا تھا جس کی تعبیر رسول اللہ (ﷺ) نے یہ بتلائی کہ عبداللہ بن سلام آخری دم تک اسلام پر ثابت قدم رہیں گے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المناقب‘ باب مناقب عبداللہ بن سلام] مسائل : 1۔ اہل کتاب سب ایک جیسے نہیں۔ 2۔ اہل کتاب میں سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہوئے اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں۔ 3۔ اللہ و آخرت پر ایمان‘ امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر اور نیکیوں میں جلدی کرنے والے صالح ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی کی ناقدری نہیں کرتا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ متقی کون ہے۔ تفسیر بالقرآن : اہل کتاب میں اچھے لوگوں کے اوصاف : 1۔ اللہ تعالیٰ‘ آخرت اور اللہ کی نازل کردہ کتب اور قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں۔ (آل عمران :199) 2۔ اللہ کی آیات کے بدلے دنیا کا مال نہیں بٹورتے۔ (آل عمران :199) 3۔ رات کو اٹھ اٹھ کر کتاب اللہ یعنی قران مجید کی تلاوت کرتے ہیں۔ (آل عمران :113) 4۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ (آل عمران :114) 5۔ امانتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ (آل عمران :75)