وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
اور داؤد کو ہم نے سلیمان عطا کیا [٣٨]۔ وہ بہت اچھا بندہ اور (اپنے پروردگار کی طرف) بکثرت رجوع کرنے والا تھا۔
فہم القرآن: (آیت30سے33) ربط کلام : اولوالباب میں سے دو عظیم عقل مندوں کا کردارپیش کیا جاتا ہے۔ اسی سورۃ میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے محبوب (ﷺ) ! ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کو یاد فرمائیں جو طاقت ورہونے کے باوجود ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا تھا۔ ہم نے اس کے لیے پہاڑ اور پرندے مسخر کیے تھے۔ ہم نے اس کی مملکت کو مضبوط کیا اور اسے فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا۔ ہم نے ہی اسے سلیمان (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا فرمایا۔ سلیمان (علیہ السلام) بھی بہترین بندہ اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا تھا، اس کا اہم واقعہ یہ ہے کہ جب شام کے وقت اس کے سامنے سکھلائے ہوئے تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے تو اس نے کہا کہ میں نے اللہ کے لیے ان گھوڑوں سے محبت کی ہے۔ یہاں تک کہ گھوڑے دوڑتے ہوئے اس کی نگاہ سے اوجھل ہوگئے۔ حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو میرے سامنے پیش کیا جائے۔ گھوڑے ان کے سامنے پیش کیے گئے تو سلیمان (علیہ السلام) پیار سے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ اس آیت کریمہ کی تشریح میں مفسرین نے دو آراء کا اظہار فرمایا ہے۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے گھوڑوں کی دوڑ لگوائی۔ دوڑ کے بعد حکم دیا کہ گھوڑے میرے سامنے پیش کیے جائیں۔ جب گھوڑے ان کی خدمت میں پیش کیے گئے تو وہ پیار کرتے ہوئے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرے جارہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی عصر کی نماز یا خاص ذکر جو غروب آفتاب سے پہلے کرتے تھے وہ بھول گئے۔ اس مصروفیت میں نماز مغرب کا وقت ہوگیا۔ اس پر انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ پر افسوس! کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اللہ کا ذکر بھول گیا ہوں۔ اس پر انہوں نے تمام گھوڑوں کی ٹانگیں اور گردنیں کاٹ دیں۔ یہ تفسیر کرنے والے حضرات میں سے کچھ کا خیال ہے کہ گردنیں اور ٹانگیں کاٹنے سے مراد انہوں نے تمام گھوڑے اللہ کی راہ میں ذبح کردئیے۔ یاد رہے کہ گھوڑا ہماری شریعت میں بھی حلال ہے آج بھی انڈونیشیا، قازقستان، ترکستان اور وسطی ریاستوں میں گھوڑے اس طرح ہی ذبح کیے جاتے ہیں جس طرح پاکستان اور دوسرے ممالک میں گائے، اونٹ، دبنے، چھترے اور بکرے ذبح کیے جاتے ہیں۔ جن بزرگوں نے اس آیت کا ترجمہ درج ذیل کیا ہے ان میں ماضی قریب کے مفسر شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ اور مفکرمولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی شامل ہیں۔ ان بزرگوں کا خیال ہے کہ عربی گرائمر کے لحاظ سے یہ ترجمہ کیا جائے کہ ” میں نے اس مال یعنی گھوڑوں سے محبت اپنے رب کے ذکر کے لیے کی ہے“ تاکہ گھوڑوں پر سوار ہو کر جہاد کیا جائے جس سے دین کو غلبہ حاصل ہو اس لیے انہوں نے گھوڑوں کی دوڑلگوائی۔ یہاں تک کہ وہ دور نکل گئے اور سلیمان (علیہ السلام) کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ تب انہوں نے حکم دیا کہ گھوڑوں کو واپس لایا جائے۔ جب گھوڑے ان کے حضور پیش کیے گئے تو پیار کرتے ہوئے گھوڑوں کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مغرب ہوگئی اور عصر کی نماز یا خاص ذکر بھول گئے۔ اس تفسیر کے مطابق اس آیت مبارک کا ترجمہ یوں ہوگا ” انہوں نے کہا میں نے اس مال کی محبت اپنے رب کی یاد کی وجہ سے اختیار کی ہے۔“ (ص : 32، 33) مسائل: 1۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی اپنے باپ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرح اللہ تعالیٰ کے نبی اور محبوب ترین بندے تھے۔ 2۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی اپنے باپ کی طرح ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن: انبیائے کرام (علیہ السلام) ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے تھے : 1۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور رحم نہیں فرمائے گا تو ہم یقیناً نقصان اٹھائیں گے۔ (الاعراف :23) 2۔ یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں اپنی بے قراری اور غم کی شکایت صرف اللہ کے حضور پیش کرتا ہوں۔ (یوسف :86) 3۔ زکریا (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو ہی بہترین وارث ہے۔ (الانبیاء :89)