وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ
اور ہم نے آسمان، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے یہ چیزیں فضول [٣٥] ہی پیدا نہیں کردیں۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جو کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لئے دوزخ کی آگ سے ہلاکت ہے
فہم القرآن: (آیت27سے28) ربط کلام : جو لوگ آخرت کے حساب کو بھول گئے اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں وہ فکری اورعملی طور پر سمجھتے ہیں کہ ہم نے دنیا کو بے مقصد پیدا کیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے ذمے کچھ ذمہ داریاں لگائیں ہیں جن کا حساب دینا پڑے گا۔ اس سے پہلی آیت میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حوالے سے ہر شخص کو بتلایا اور سمجھایا ہے کہ اپنی خواہش کے پیچھے نہیں لگنا۔ جو اپنی خواہش کے پیچھے چلا وہ گمراہ ہوا۔ اس کی گمراہی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ قیامت کے حساب و کتاب کو بھول چکا ہے۔ جو قیامت کے حساب کو بھول گیا وہ زبان سے کہے یا نہ کہے اس کا عمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس دنیا کے بعد کوئی جہان نہیں جو کچھ دنیا میں ہوا سو ہوا۔ اس سے آگے کچھ نہ ہوگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں میں کوئی چیز بے کار اور بے مقصد پیدا نہیں کی۔ ایسا تو وہ لوگ سوچتے اور کہتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے انکاری ہیں۔ انکار کرنے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا گیا ہے۔ کیا ایمان داروں اور نیک اعمال کرنے والوں کو دنیا میں فساد کرنے والوں کے برابر کردیا جائے گا؟ کیا اللہ سے ڈر کرز ندگی گزارنے والوں اور فسق وفجور کرنے والوں کو ایک جیسا سمجھاجائے گا؟ ظاہر بات ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یہاں کفار کو مفسدین کہا گیا ہے اسے لیے کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کا نظام یوں ہی چلتا رہے گا اور قیامت قائم نہیں ہوگی گویا کہ وہ اپنے اعمال کی جوابدہی کا انکار کرتے ہیں اس عقیدہ کی بنا پر یہ لوگ دنیا میں فساد کا موجب ہوتے ہیں۔ کائنات کو پیدا کرنے کے بنیادی طور پر دو مقاصد ہیں ایک مقصد تو یہ ہے کہ ہر چیز اپنے خالق کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی عبادت اور اطاعت کرتی رہے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہر چیز اپنے خالق کے حکم کے مطابق انسان کی خدمت کرے۔ جو شخص آخرت کو فراموش کردیتا ہے وہ نہ تو اپنے خالق کا تابعدار رہتا ہے اور نہ ہی ٹھیک طور پر بندوں کے حقوق پورے کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے جب حقداروں کے حقوق پورے نہیں ہوں گے تو اس کا نتیجہ فساد ہوگا۔ سوچیں کہ فساد کرنے اور فساد نہ کرنے والے کس طرح برابر ہوسکتے ہیں؟ ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ قُلْ سِيرُوا فِي الأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلُ كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِينَ ﴾[ الروم : 41، 42] ” لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے تاکہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزا چکھایاجائے شاید کہ وہ باز آجائیں۔ اے نبی ان سے کہو کہ زمین میں چل کر دیکھو پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوا ہے، ان میں سے اکثر مشرک تھے۔“ (الرّوم : 41، 42) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور کسی چیز کو بے مقصد پیدا نہیں کی۔ 2۔ دنیا کو بے مقصد سمجھنے والے کافر ہیں کفار کو جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ 3۔ کافر فی الحقیقت فساد کرنیوالے ہیں اور مؤمن امن پسند ہوتے ہیں۔ 4۔ متقی اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے۔ تفسیر بالقرآن: مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے : 1۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہیں۔ (السجدۃ:18) 2۔ کیا اندھا اور بینا، بہرا اور سننے والا برابر ہوسکتے ہیں؟ (ہود :24) 3۔ اللہ تعالیٰ مجرموں اور مومنوں کو برابر نہیں کرے گا۔ (القلم : 35۔36) 4۔ کتاب اللہ پر ایمان لانے والا اور نہ لانے والا برابر نہیں ہو سکتے۔ (الرّعد :19) 5۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والا اور بدکار برابر نہیں ہو سکتے۔ (المومن :58) 6۔ نیک اعمال کرنے والے اور فساد کرنے والے اور متقین اور گنہگار برابر نہیں ہوسکتے۔ (صٓ:28)