يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ
(ہم نے ان سے کہا) اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں نائب بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کرنا اور خواہش نفس کی پیروی [٣٣] نہ کرنا ورنہ یہ بات تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بہک جاتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے کیونکہ وہ روز حساب [٣٤] کو بھول گئے۔
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) دنیا میں بڑے مرتبے اور مقام کے حامل تھے اور قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے مقرب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین میں خلیفہ بنا کر خصوصی ہدایات فرمائیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں بڑے بڑے حکمران اور ذیشان انبیائے کرام (علیہ السلام) ہوئے لیکن ان کی اولاد میں صرف حضرت داؤد (علیہ السلام) ایسی شخصیت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے بعد خلیفہ فی الارض ہونے کا اعزاز بخشا۔ اس لیے انہیں ارشاد ہوا کہ اے داؤد (علیہ السلام) ! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا تیرا فرض بنتا ہے کہ تو لوگوں کے درمیان حق اور سچ کے ساتھ فیصلے کرے۔ تجھے کسی صورت بھی حق بات چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی نہیں کرنا چاہیے۔ اگر تو اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑے گا۔ تو اللہ کے راستے سے بھٹک جائے گا جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے شدید عذاب ہوگا کیونکہ انہوں نے آخرت کے حساب کو فراموش کردیا تھا۔ ” خَلِیْفَۃٌ“ کا معنٰی ہے ” دوسرے کے پیچھے آنے والا“ البقرۃ کی آیت 30کی تشریح میں عرض کیا جا چکا ہے کہ خلیفہ کا معنٰی اللہ تعالیٰ کا نائب نہیں بلکہ اس کا معنٰی حکمران کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے پہلے زمین میں جنات رہتے تھے ان کے بعد دنیا کا نظام آدم کے حوالے کیا گیا جس بنا پر آدم (علیہ السلام) کو خلیفہ فی الارض کے لقب سے نوازا گیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) بکریوں کے چرواہے تھے۔ اپنے دور کے ایک جرنیل طالوت کی فوج میں شامل ہوئے جن کا مقابلہ جالوت کے ساتھ ہوا۔ داؤدنے اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے جس کی وجہ سے فوج کے کمانڈر کے مقبول نظر ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حسن وجمال اور کمال صلاحیتوں سے سرافراز فرمایا تھا اس لیے بہت جلد اپنی قوم کی آنکھوں کا تارا بنے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے سرفراز کیا اور بے مثال حکمران بنایا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) کو خلیفہ فی الارض ہونے کا شرف بخشا۔ 2۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) خلیفہ ہونے کے ساتھ عظیم حکمران بھی تھے۔ 3۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ 4۔ قیامت کے دن گمراہ لوگوں کو شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تفسیربالقرآن: اللہ تعالیٰ زمین میں لوگوں کو ایک دوسرے کا خلیفہ بنا تا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین میں خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ:30) 2۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ ان میں سے ضرور خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا۔ (النور :55) 3۔ اللہ چاہے تو تمھیں اٹھا لے اور تمھارے بعد جس کو چاہے تمہارا خلیفہ بنادے۔ (الانعام :133) 4۔ تمہارا رب جلد ہی تمھارے دشمن کو ہلاک کردے اور ان کے بعد تم کو خلیفہ بنائے گا۔ (الاعراف :129) 5۔ پھر ہم نے زمین میں ان کے بعد تمہیں خلافت دی تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔ (یونس :14) 6۔ میرا رب تمہارے سوا کسی اور کو خلافت دے دے تو تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (ہود :57) اپنی یا لوگوں کی خواہشات کے پیچھے چلنے والے گمراہ ہوجاتے ہیں : 1۔ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ (صٓ:26) 2۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجاتا ہے۔ (طٰہٰ:16) 3۔ سب سے بڑا گمراہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہے۔ (القصص :50) 4۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا خواہشات کو اِلٰہ بنا لیتا ہے۔ (الفرقان :43) 5۔ حق کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے سے زمین و آسمان میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ (المومنون :71)