وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ
اور الیاس بھی بلاشبہ رسولوں میں سے تھے
فہم القرآن:(آیت123سے132) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) کا تذکرہ۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے۔ ان کا ذکر قرآن مجید میں صرف دو ہی مقامات پر آیا ہے ایک مرتبہ یہاں اور دوسری مرتبہ سورۃ انعام آیت 85میں ذکر ہوا ہے موجودہ زمانہ کے محققین ان کا زمانہ 875اور 850ق م کے درمیان متعین کرتے ہیں۔ وہ جلعاد کے رہنے والے تھے۔ قدیم زمانہ میں جِلْعاد اس علاقے کو کہتے تھے جو دریائے یرموک کے جنوب میں واقع ہے۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) جنہیں اس مقام پر قرآن مجید نے الیاسین بھی کہا ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کو انہی الفاظ کے ساتھ خطاب فرمایا جن الفاظ میں پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) اپنی اپنی قوم کو خطاب کرتے رہے۔ ارشاد فرماتے ہیں۔ اے میری قوم! اللہ سے ڈرو اس کے ساتھ شرک کرنا چھوڑ دو اور اسکی نافرمانی سے باز آجاؤ! تمہارا کردار یہ ہے کہ تم بعل کے سامنے رکوع، سجود کرتے اور نذرونیاز پیش کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑے ہوئے ہو۔ حالانکہ اس نے انسان اور ہر چیز کو اس کے ماحول کے مطابق بہتر سے بہتر پیدا فرمایا ہے۔ اللہ ہی تمہیں اور تمہارے آباؤ اجداد کو پیدا کرنے والا اور ہر چیز عطا کرنے والا ہے۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قوم نے اس فطری اور سادہ دعوت کو جھٹلادیا۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ انہیں حاضر کیا جائے گا یعنی دعوت توحید ٹھکرانے اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے انہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی اس سزا سے وہی لوگ بچ پائیں گے جنہوں نے عقیدہ توحید اختیار کیا اور مخلصانہ طور پر اس کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ بے شک قوم نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرادیا لیکن اللہ تعالیٰ نے الیاس (علیہ السلام) کی محنت قبول کرتے ہوئے ان کے کام اور نام کو ہمیشہ کے لیے باقی رکھا۔ ان پر اللہ کی رحمتیں برستی رہیں گی۔ کیونکہ جو لوگ اخلاص اور اپنے رب کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے الیاس (علیہ السلام) کو یہ بھی اعزاز بخشا کہ انہیں دنیا اور آخرت میں اپنے مومن بندوں میں شامل فرمایا۔ مسائل: 1۔ الیاس (علیہ السلام) بھی اللہ کے پیغمبروں میں شامل ہیں۔ 2۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قوم نے بعل (بت) کے مقابلے میں عقیدہ توحید کو ٹھکرادیا۔ 3۔ قیامت کے دن ان کی قوم کو اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ 4۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) پر ہمیشہ ہمیش اللہ تعالیٰ کی رحمتیں برستی رہیں گی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ کی رحمتیں انبیائے کرام (علیہ السلام) پر ہمیشہ نازل ہوتی رہیں گی : 1۔ حضرت نوح، ابراہیم اور الیاس پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت برستے رہے گی۔ (الصّافّات : 79، 109، 123) 2۔ اگر انہوں نے آپ (ﷺ) کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمھارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام :147) 3۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کو اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص کرتا ہے۔ (الانبیاء :86) (الصّافّات :130)