فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَزِفُّونَ
(واپس آکر انہوں نے جو یہ صورت حال دیکھی) تو دوڑتے ہوئے ابراہیم کے پاس آئے
فہم القرآن:(آیت94سے96) ربط کلام : قوم کا شدید ردِعمل۔ قوم جب واپس پلٹی تو ان کی خوشی، غم اور پریشانی میں تبدیل ہوگئی زبردست اضطراب اور شدید ہنگامہ برپا ہوا۔ ہنگامی حالات کا اعلان ہوا اجلاس پہ اجلاس بلائے جا رہے ہیں۔ تاکہ عوام کو اپنی کارکردگی دکھا کر فوری طور پر مطمئن کیا جائے، چنانچہ دفعتًا فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ ﴿قَالُوْا فَاْتُوْا بِہٖ عَلٰٓی اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَشْھَدُوْنَ﴾[ الانبیاء :61] ” انھوں نے کہا کہ ابراہیم کو لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ لوگ گواہ ہوں۔“ ﴿فَأَقْبَلُوْا إِلَیْہِ یَزِفُّونَ﴾[ الصّٰفٰت :94] ” وہ ابراہیم کی طرف دوڑتے ہوئے آئے۔“ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ لوگ کس غیظ وغضب کے ساتھ آپ (علیہ السلام) کو پکڑ کر لائے ہوں گے۔ کتنے آوازے کسے ہوں گے اور کتنی گستاخیاں کی ہوں گی ؟ لیکن ابراہیم ہجوم مشرکین کو زمین کے ذرات سے بھی حقیر تصور کرتے ہوئے ایسی جرأت اور مردانگی سے جواب دیتے ہیں کہ ان کی کئی کئی گز لمبی زبانیں اس طرح گنگ ہوگئیں، جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ ان میں نام نہاد دانشور، پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہر قسم کے لوگ موجود ہیں لیکن کوئی بولنے کی جرأت نہیں کر پاتا۔ کیوں بولیں اور کس بنیاد پربات بولیں۔ ﴿وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ لاَ بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ فَاِِنَّمَا حِسَابُہُ عِنْدَ رَبِّہٖ اِِنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ﴾[ المؤمنون :117] ” جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارتے ہیں ان کے پاس ان کو پکارنے کی کوئی دلیل نہیں ان کا حساب رب کے ذمہ ہے۔ یقین جانوکہ کافر کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔“ اسی لیے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ تم سب کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ لیکن قوم ایمان لانے کی بجائے ابراہیم (علیہ السلام) کو جلا دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔