إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ
جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پوچھا : ''تم کن چیزوں کی عبادت کرتے ہو؟
فہم القرآن:(آیت85سے87) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ اور قوم کو مشتر کہ خطاب۔ سورۃ مریم آیت 42تا 45میں موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اپنے وا لد گرامی کو سمجھایا کہ اے میرے والد گرامی ! جن کے سامنے آپ اپنی حاجات اور نذر ونیاز پیش کرتے ہیں نہ یہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی آپ کو کوئی فائدہ دے سکتے ہیں۔ اسی بات کو ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ اور قوم سے مشترکہ خطاب میں یوں بیان فرمایا۔ اے والد گرامی اور میری قوم کے لوگو! اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور جن کے سامنے تم اپنی حاجات پیش کرتے ہو ان کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں۔ یہ بتاؤ! کہ رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ یعنی جو عبادات اور آداب اللہ کے حضور بجالانے چاہییں وہ تم اس کے سوا دوسروں کے سامنے کرتے ہو۔ قرآن مجید کی تلاوت سے یہ بات آشکارہ ہوتی ہے کہ ہر دور کے کلمہ پڑھنے والے مشرک زندہ اور فوت شدہ بزرگوں اور غیر مسلم اپنے دیوتاؤں کے بارے میں ایسے ہی تخیلات رکھتے اور باتیں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں رکھنے اور کرنی چاہییں۔ ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں کے عقیدہ اور خیالات کے لیے ” اِفْکًا“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی جھوٹ اور بناوٹی عقائد اور خیالات ہیں۔ اسی بنا پر ایک مشرک کہتا ہے کہ فلاں قبر والا یا دیوتا اولاد دیتا ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ فلاں بزرگ فلاں کام کرتا ہے۔ یہ لوگ جھوٹی کرامات اور من گھڑت افسانے ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتے رہتے ہیں حالانکہ ان میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ قرآن مجید نے ایسے خیالات اور آداب کو بزرگوں اور دیوتاؤں کی عبادت کرنے کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ یہاں تک کہ زندہ یا فوت شدہ بزرگ یا بت وغیرہ کے سامنے ادب سجدہ کرنا، جھکنا اور نذرونیاز پیش کرنا ہے یہ تو ہر مذہب میں عبادت شمار کیے جاتے ہیں۔ بے شک اسے تعظیم اور ثواب کے طور پر ادا کیا جائے یا عادتاً یا سیاسی اور سماجی رسم کے طور پر کیا جائے۔ حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کے سوا یا اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرنا ہے۔ جس سے تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) منع کرتے رہے ہیں۔ مزارات پر چڑھاوا چڑھانا اور میّت کے لیے نذرماننا حرام ہے : بریلوی مکتبہ فکر کے مفتی علامہ غلام رسول سعیدی تحریر فرماتے ہیں کہ جو شخص اولیاء اللہ کی نذر ونیاز اس طرح مانتا ہے ” اے سیدی ! اگر میرا گم شدہ شخص لوٹ آئے یا میرا بیمار تندرست ہوگیا یا میری حاجت پوری ہوگئی تو میں آپ کو اتنا سونا، چاندی، کھانا، موم بتیاں یا تیل دوں گا۔ یہ نذرونیاز بالاجماع باطل اور حرام ہے اور اس پر متعدد دلائل ہیں۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ یہ مخلوق کی نذر ہے اور مخلوق کی نذر جائز نہیں ہے کیونکہ نذر عبادت ہے اور مخلوق کی عبادت جائز نہیں ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ نذر ماننے والے کا یہ گمان ہے کہ اشیاء میں اللہ نہیں میّت کا تصرّف ہے تو اس کا یہ اعتقاد کفر ہے۔[ شرح صحیح مسلم ازغلام رسول سعیدی : کتاب النذر] شرکیہ مقام سے بچنا بھی لازم ہے : ” مجھے ثابت بن ضحاک (رض) نے بتایا کہ رسول اللہ (ﷺ) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کروں گا آپ (ﷺ) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پھر پوچھا : کیا وہاں کوئی ان کا میلہ لگتا تھا؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا۔ آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنالازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔“ [ رواہ أبوداؤد : کتاب الأیمان والنذور (صحیح)] مسائل: 1۔ مشرک اپنے من ساختہ معبودوں کے بارے میں جھوٹی کرامات اور من گھڑت واقعات بیان کرتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی بجائے مشرک غیروں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: انبیائے کرام کی دعوت کا مرکزی پیغام : 1۔ نوح (علیہ السلام) کا فرمان کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور دوسروں کو چھوڑ دو۔ (ھود :26) 2۔ ھود (علیہ السلام) نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کیا۔ (الاعراف :65) 3۔ صالح (علیہ السلام) نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کیا۔ (الاعراف :73) 4۔ شعیب (علیہ السلام) نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کیا۔ (الاعراف :85) 5۔ یوسف (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا۔ (یوسف :40) 6۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ (المائدۃ:72) 7۔ تمام انبیاء کو صرف اللہ کی عبادت کرنے کا حکم۔ (البینۃ:5)