وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ
ہم نے اس (نبی) کو شعر کہنا نہیں سکھایا [٦١] اور یہ اس کے لئے مناسب [٦٢] بھی نہ تھا۔ یہ تو ایک نصیحت اور واضح پڑھی جانے والی کتاب ہے
فہم القرآن: (آیت69سے70) ربط کلام : جس طرح مشرکین مکہ اللہ کی توحید کے بارے میں بے سمجھی کا مظاہرہ کرتے اسی طرح ہی قرآن مجید کے متعلق بے عقلی کی بات کرتے کہ قرآن کسی شاعر کا کلام ہے یہاں ان کے الزام کا جواب دیا گیا ہے۔ کفار کا کہنا تھا کہ محمد (ﷺ) شاعرانہ تخیلات پیش کرتا ہے جس کی تردید کے لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے اپنے نبی (ﷺ) کو شعر و شاعری نہیں سکھلائی اور نہ ہی اس کی یہ شان ہے کہ وہ شعرگوئی کرے۔ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے۔ جو لوگوں کے لیے نصیحت کے طور پر اتارا گیا ہے لیکن نصیحت وہی شخص حاصل کرکے گا جو ہوش، گوش رکھتا ہے۔ اور قرآن لوگوں پر کھلی حجت ہے یہاں تک شاعر اور اس کے تخیلات کا تعلق ہے اس کے بارے میں سورۃ الشعراء کی آیت 221تا 226میں وضاحت کی گئی ہے کہ شیطان ہر جھوٹے اور برے آدمی پر آیا کرتے ہیں۔ جو ان کے کان میں جھوٹی باتیں ڈالتے ہیں اور شاعروں کی پیروی کرنے والے اکثر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔ کیا تم لوگ شاعروں کو نہیں جانتے کہ وہ ہر وادی میں سرگردان پھرتے ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس پر ان کا عمل نہیں ہوتا۔ ان کے مقابلے میں نبی اکرم (ﷺ) نبوت سے پہلے بھی بات کے سچے اور قول کے پکے تھے اور آپ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) پر شاعرانہ کلام نازل نہیں کیا اور نہ ہی آپ کی شان ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے شعر گاتے پھریں۔ شعروں کے پرستار لوگ قرآن و سنت اور عقل کی بات پر اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی شعر وشاعری پر دیا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے سامنے شعر نہ پڑھا جائے تو انہیں قرآن سننے کا بھی لطف نہیں آتا جو لطف وہ شعر میں محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک اگر قرآن مجید فطری اور سادہ انداز میں پڑھا جائے تو انہیں ایسی تلاوت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس کا ثبوت عوامی جلسوں میں دیکھا اور سنا جاسکتا۔ جس جماعت اور معاشرے میں یہ صورت حال پیدا ہوجائے۔ اس معاشرے اور جماعت میں دن بدن شعور اور علم رخصت اور جہالت کا غلبہ ہوتا جاتا ہے۔ مولانا حالی کا قول : متحدہ ہندوستان کے دور میں مولانا الطاف حسین حالی ان چند شعراء میں شامل تھے جن کا اس زمانہ میں طوطی بولتا تھا وہ اپنی کتاب مقدمہ شعر و شاعری میں لکھتے ہیں۔ شاعری کا ماحول عام طور پر جہالت کے دور میں زیادہ پنپتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یونان کے مشہور فلسفی اور مفکر ارسطو کا حوالہ دیا ہے کہ جب اس نے پہلی مرتبہ یونان کا دستور مرتب کیا تو ہر طبقہ کی ضرورت محسوس کی لیکن شاعروں کے طبقہ کو اس لیے در غور اعتنانہ سمجھا کیونکہ بقول اس کے کہ شاعر لوگ عام طور پر باتیں جوڑنے اور بنانے کے سوا کسی کام کے نہیں ہوتے۔ ارسطو کے قول کے بارے میں نہ معلوم دانشوروں کی کیا رائے ہوگی تاہم یہ بات مسلمہ ہے کہ شعر وشاعری کے ماحول میں علم اور عقل کی بات کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ میں نے زندگی میں ان گنت عوامی اجتماعات میں تقریر کی اور خطیبوں کے خطاب سنے ہیں۔ جس اجتماع میں کوئی خطیب شعر یا ترنم کے ساتھ بات نہیں کرتا بیشک وہ کتنا ہی اچھا خطیب اور عالم کیوں نہ ہو اکثر لوگ اس کی بات سننے کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ جس معاشرے اور جماعت میں ایسا ماحول پیدا ہوجائے وہاں علم اور علماء کی قدر اٹھ جاتی ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شعر و شاعری کے فوائد کم اور اس کے نقصانات گہرے، زیادہ اور دیرپا ہوتے ہیں۔ امام جصّاص (رض) نے اپنی سند سے روایت کیا ہے کہ عائشہ (رض) سے کسی نے سوال کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) کبھی شعر پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ البتہ ایک شعر ابن طرفہ کا آپ (ﷺ) نے پڑھا تھا۔ ستبدی لک الایام ما کنت جاھلا و یأتیک بالاخبار من لم تزوّد ” اس کو آپ (ﷺ) نے وزن شعری کو توڑ کر من لم تزوّد بالاخبار پڑھا۔ حضرت ابو بکر (رض) نے عرض کی کہ یا رسول اللہ (ﷺ) یہ شعر اس طرح نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں شاعر نہیں، نہ ہی میرے لیے شعرو شاعری مناسب ہے“۔[ مسند احمد : باب مَا جَاءَ فِی إِنْشَاد الشِّعْر]ِ اس لیے نبی اکرم (ﷺ) نے پوری حیات مبارکہ میں کسی خطاب میں شعر کہنا پسند نہیں فرمایا۔ حالانکہ بعض شاعروں کے کلام کی آپ (ﷺ) نے نہ صرف تعریف فرمائی ہے بلکہ حضرت حسان بن ثابت (رض) کو اپنے ممبر پر بٹھایا اور خود نیچے تشریف فرما ہوتے ہوئے اس کے لیے ان الفاظ میں دعا کی ” اَللّٰہُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ“” اے اللہ جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے اس کی مدد فرما۔ [ رواہ البخاری : باب ذِکْرِ الْمَلاَئِکَۃِ ] اس لیے کسی خلیفہ اور صحابی (رض) سے ثابت نہیں کہ اس نے خطبہ جمعہ میں کبھی شعر پڑھا ہو۔ ہمیں بھی شعر و شاعری سے اجتناب کرنا چاہیے۔