الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
آج ہم ان کے منہ بند [٥٨] کردیں گے اور ان کے ہاتھ کلام کریں گے اور پاؤں گواہی دیں گے جو کچھ وہ کیا کرتے تھے
فہم القرآن: (آیت65سے68) ربط کلام : جہنم کے داخلے کا اعلان سنتے ہی مجرموں کی حالت۔ محشر میں ایک مرحلہ ایسا آئے گا کہ مجرم اپنے اعمال نامے اور دوسری شہادتوں کا انکار کردیں گے۔ اس پر ان کے مونہوں پر مہریں لگا دی جائیں گی۔ حکم ہوگا کہ آج تمہارے ہاتھ اور پاؤں ہمارے حضور گواہی دیں گے۔ دوسرے مقام پر ہے کہ مجرموں کے ہاتھ پاؤں گواہی دینے کے ساتھ ساتھ ان کی آنکھیں، کان اور جسم کا ایک ایک رونگٹا بول پڑے گا کہ خدایا اس کی زبان جھوٹ بول رہی ہے اس شخص نے ہمارے ذریعے یہ تمام جرم کیے ہیں جو اس کے اعمال نامے میں درج ہیں ( حٰمٓ السجدۃ : 20، 21) اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو دنیا میں بھی مجرموں کے اعضاء ختم اور ان کی آنکھیں مسخ کردے جس سے ان کا وجود جامد اور ساکت ہوکررہ جائے۔ بعض مجرموں کو قیامت کے دن یہ سزا دی جائے گی جس وجہ سے وہ ان الفاظ میں آہ و زاریاں کریں گے۔ ” جو کوئی میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی بد نصیبی کی ہوگی اور قیامت کے دن ہم اس کو اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ کہے گا کہ اے میرے پر ودگا مجھے تو نے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھا کرتا تھا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ تیرے پاس میرے احکام پہنچے تھے مگر تو ان کو بھول گیا اسی طرح آج تجھے بھلا دیا گیا ہے۔ جو کوئی اپنے پروردگار کے احکام سے تجاوز کرے اور ایمان نہ لائے ہم اس کو اسی طرح سزا دیں گے اور آخرت کا عذاب بہت ہی سخت اور دائمی ہے۔“ (طہٰ : 124تا127) انسان کی بے بسی کا عالم : اگر مجرموں کو اس بات پر یقین نہیں تو کسی بوڑھے کو دیکھ لیں جس کے کان، ناک، آنکھیں اور بظاہر پورے کا پور اجسم موجود ہوتا ہے لیکن نہ سن سکتا ہے اور نہ اسے بو اور خوشبو کا احساس ہوتا ہے۔ آنکھیں ہیں مگر دکھائی نہیں دیتا، پاؤں ہیں لیکن چل نہیں سکتا، زبان ہے مگر بات سمجھا نہیں سکتا۔ یہاں تک سوچتا کچھ ہے اور کہتاکچھ ہے۔ گویا کہ پورا جسم نکارہ ہوچکا ہے۔ بس روح اور جسم کے رشتہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی طرح بعض لوگ اس قدر ضعف اور بڑھاپے کا شکار ہوجاتے ہیں کہ بچوں کی طرح دوسرے کے سہارے کے بغیرنہ چل سکتے نہ خود کھا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اٹھنے، بیٹھنے میں بھی دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور بچوں جیسی باتیں اور حرکتیں کرتے ہیں۔ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ فِی ہَذِہِ الأُمَّۃِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْف فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَا رَسُول اللَّہِ وَمَتَی ذَاکَ قَالَ إِذَا ظَہَرَتِ الْقَیْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی عَلاَمَۃِ حُلُولِ الْمَسْخِ وَالْخَسْفِ] ” عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا، اس امت میں دھنسایا جانا، شکلیں تبدیل ہونا اور تہمت لگا ناعام ہوجائے گا۔ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے پوچھا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! ایسا وقت کب آئے گا۔ آپ نے فرمایا جب گانا گانے والیاں، بانسریاں بجانا اور شراب نوشی عام ہوجائے گی۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِک ٍ اَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) کَانَ یَدْعُو أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْکَسَلِ، وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ، وَفِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ﴿وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ﴾] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (ﷺ) دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ! میں بخیلی، سستی، رذیل عمر، عذاب قبر، دجال کے فتنے اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن مجرم کے ہاتھ اور پاؤں اس کے جرائم کی گواہی دیں گے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو مجرموں کے اعضاء ختم اور ان کی شکلیں مسخ کردے۔