وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اور (اے پیغمبر! اس وقت کا تصور کرو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا [٣٨] کہ : ’’میں زمین میں ایک خلیفہ [٣٩] بنانے والا ہوں۔‘‘ تو وہ کہنے لگے:’’کیا تو اس میں ایسے شخص کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد مچائے گا اور (ایک دوسرے کے) خون بہائے گا۔[٤٠] جبکہ ہم تیری حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح وتقدیس بھی کر رہے ہیں۔‘‘[٤١] اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ ’’جو کچھ میں جانتا ہوں [٤٢] وہ تم نہیں جانتے۔‘‘
فہم القرآن : ربط کلام : جس مکین کے لیے ہر چیز بنائی اور سجائی گئی اس کی تخلیق کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ زمین و آسمان کو بنانے اور سجانے کے بعد کائنات کی اعلیٰ ترین مخلوق ملائکہ کے پر شکوہ اجتماع میں پورے جلال و کمال کے ساتھ رب کائنات نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور خلافت کا اعلان فرمایا۔ اللہ اللہ کیا احترام و مقام ہے جناب آدم (علیہ السلام) کا! اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ اس کو بہترین سانچے میں استوار فرمایا۔ اپنی روح کو اس میں القاء کیا اور پھر خلافت کے منصب پر فائزفرماکراعلیٰ ترین مخلوق سے سجدہ کروایا اور اس کی خلافت کا اعلان فرمایا خلافت کا اعلان سنتے ہی ملائکہ نے اللہ کے حضور اس خدشہ کا اظہار کیا کہ یہ تو ایسی مخلوق ہے کہ جو زمین میں قتل و غارت اور دنگا فساد کرے گی جب کہ ہم تیری حمد وستائش کرتے ہیں۔ خلافت سے مراد اللہ تعالیٰ کی خلافت نہیں بلکہ زمین میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی حکمرانی ہے یا پھر حضرت آدم جنات کے خلیفہ ہیں کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے پہلے زمین کا نظام جنات کے سپرد تھا۔ ملائکہ کی تشویش کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں : (1) آدم کا متضاد عناصر سے تخلیق پانا۔ (2) قبل ازیں جنّات کی قتل و غارت گری اور نافرمانیوں کا مشاہدہ کرنا۔ (3) آدم کا اعلیٰ منصب پر فائز ہونا اور اس کو وسیع اختیارات ملنا۔ بعض مفسرین نے ملائکہ کے اس خدشہ سے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ خود خلافت کے منصب کے امیدوار تھے جس کی وجہ سے انہوں نے جناب آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور تقرری پر اعتراض کیا تھا۔ ملائکہ حرص وہوس اور رشک و حسد سے پاک پیدا کیے گئے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط اور ایسا کہنے کی ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں۔ پھر کسی کی کیا مجال ہے کہ وہ اللہ کے کسی کام پر معترضانہ گفتگو کرسکے : ﴿لَایُسْاَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْاَلُوْنَ﴾ (الانبیاء :23) ” اللہ تعالیٰ کے کسی کام پر سوال نہیں ہوتا البتہ مخلوق سے سوال کیا جاتا ہے“ ﴿وَکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ﴾ کا مفہوم جاننے کے لیے ہر ذی شعور سمجھتا ہے کہ جب چھوٹا آدمی کسی بڑے کے سامنے اس کے فرمان یا کام پر اظہار خیال کرتا ہے۔ بے شک اس ہستی نے ہی اظہار خیال یا تبصرہ کا موقعہ فراہم کیا ہو تو پھر بھی چھوٹا آدمی نہایت ادب اور دبی زبان بلکہ اکثر دفعہ اشارے، کنائے سے بات کرتا ہے۔ یہاں بھی سلسلۂ کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملائکہ نے ذات کبریا کے حضور چند الفاظ اور معمولی جذبات کا اظہار کیا تھا۔ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جو تم نے چھپایا میں اسے بھی جانتا ہوں۔ کچھ لوگوں نے ملائکہ کے سامنے تخلیق آدم کے تذکرے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشاورت کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ ذات کبریا کے متعلق مشورہ کے لفظ استعمال کرنا کئی لحاظ سے محل نظر اور اس سے گستاخی کا پہلو نکلتا ہے۔ کیونکہ مشورہ کرنے میں کسی نہ کسی سطح پر حاجت اور کمزوری پائی جاتی ہے۔ اگر مشورہ لینے والے میں کسی قسم کی کمزوری نہ بھی ہو اور وہ دل جوئی کے لیے دوسرے سے مشورہ لے رہا ہو تو اس دل جوئی کے پیچھے بھی مروت قائم رکھنے کی محتاجی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حاجتوں اور احتیاطوں سے مبرّاہے۔ میرے نقطہء نگاہ سے تخلیق آدم کے تذکرہ کو ایک اطلاع یا شاہانہ سرکاری اعلان کہنا چاہیے۔ اس بنا پر ہی ملائکہ کے اظہار تشویش پر فرمایا گیا کہ تمہیں کیا معلوم میں سب کچھ اور بہتر جانتا ہوں۔ مسائل: 1۔ انسان زمین میں اللہ تعالیٰ کا کی طرف سے حکمران ہے اسے دنگا فساد کرنے کی بجائے خلافت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ 2۔ ملائکہ ہر دم اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل کرتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : خلافت اور اس کی ذمہ داریاں : 1۔ خلافت نیک لوگوں کا استحقاق ہے۔ (النور :55) 2۔ خلافت آزمائش ہے۔ (الانعام :165) 3۔ خلافت اللہ ہی عطا کرتا ہے۔ (الانعام : 133، الاعراف :129) 4۔ اللہ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کا خلیفہ بناتا ہے۔ (فاطر :29) 5۔ خلافت کی ذمہ داریاں۔ (ص : 26‘ الحج :41)