وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
نیز وہ کہتے ہیں کہ : ’’اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ (قیامت) کب پورا ہوگا ؟‘‘
فہم القرآن: (آیت48سے50) ربط کلام : بخیل اور گمراہ شخص آخرت کے بارے میں شک کرتا ہے۔ مال کی محبت ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو انسان میں بخل پیدا ہوجاتا ہے۔ بخیل انسان عملاً قیامت کا منکر ہوتا ہے مکہ کے اکثر سردار قیامت کے منکر تھے جس وجہ سے وہ نبی (ﷺ) سے بار بار سوال کرتے کہ جس قیامت کا ہمارے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے وہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ اگر تم سچے ہو تو اس وعدے کے بارے میں بتلاؤ کہ وہ کون سے سال، کس مہینے اور کس دن پورا ہوگا؟ سورۃ الاعراف کی آیت 187میں کفار کے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ کب نازل ہوگی؟ ان سے فرمائیں! اس کا علم میرے رب کے پاس ہے۔ وہ اپنے وقت پر ہر صورت برپا ہوگی۔ البتہ یاد رکھو کہ جب برپا ہوگی تو اچانک آجائے گی اور وہ زمین و آسمان پر اس طرح بھاری ہوگی کہ وہ اس کے وارد ہونے کا بوجھ برداشت نہیں کرسکیں گے۔ اس مقام پر کفار کے سوال کا صرف اتنا جواب دیا ہے کہ جب قیامت کا پہلا نفخہ پھونکا جائے گا تو اس قدر اچانک ہوگا کہ تم آپس میں دنیا کے معاملات میں بحث وتکرار کررہے ہو گے تو قیامت برپا ہوجائے گی۔ کسی شخص کو اپنی اولاد کو وصیت کرنے کا موقعہ نہیں مل سکے گا اور اپنے گھر سے باہر ہونے والا شخص اپنے گھر نہ پلٹ سکے گا تو قیامت اسے دبوچ لے گی۔ ہر انسان کی فطری کمزوری اور خواہش ہوتی ہے کہ اسے گھر میں موت آئے اور وہ اپنی اولاد کو کوئی نہ کوئی نصیحت کرجائے۔ اگر گھر سے باہر ہو تو وہ مصیبت کے وقت جلد از جلد گھر پلٹنا چاہتا ہے۔ لیکن قیامت کے دن کسی کو کسی حال میں مہلت نہیں مل سکے گی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ، فَذَلِکَ حینَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہِ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہِ فَلاَ یَطْعَمُہُ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیطُ حَوْضَہُ فَلاَ یَسْقِی فیہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہُ إِلَی فیہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (ﷺ) بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کرتمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت ان کو ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پروارد ہونے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ انسان منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ مسائل: 1۔ منکرین حق قیامت برپا ہونے سے پہلے حق بات تسلیم نہیں کریں گے۔ 2۔ قیامت کے دن کوئی شخص کسی کو وصیّت کرنے کی مہلت نہیں پائے گا۔ 3۔ قیامت کے دن اپنے گھر سے باہر ہونے والا شخص گھر نہیں پلٹ سکے گا کہ قیامت کا زلزلہ اسے مار ڈالے گا۔ تفسیربالقرآن: قیامت کا اچانک برپا ہونا اور اس کی ہولناکیاں : 1۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال :1) 2۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعۃ:1) 3۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج :1) 4۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف :187) 5۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ :4) 6۔ قیامت کے دن پہاڑ اون کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ:5) 7۔ زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ ( الواقعہ :4) 8۔ قیامت کے دن لوگ مدہوش ہونگے حالانکہ انہوں نے شراب نہیں پی ہوگی۔ ( الحج :1)