وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا
اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کے مطابق ان کا مواخذہ کرتا تو سطح زمین پر کوئی جاندار [٥٢] (زندہ) نہ چھوڑتا لیکن وہ تو ایک مقررہ وقت تک انہیں ڈھیل دیے جاتا ہے۔ پھر جب ان کا وہ مقررہ وقت آجائے گا تو اللہ یقیناً اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے (وہ ان سے نمٹ لے گا)
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس لیے مہلت دیتا ہے تاکہ وہ اس کے حضور اپنے گناہوں کی توبہ کرلیں۔ رب کریم کی عطاکردہ مہلت سے حقیقی فائدہ اٹھانے کی بجائے مجرم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فی الفور ہماری گرفت نہیں کرتا اور ہمیں بدستور دنیا کے مال و دولت اور شان و شوکت دیئے جارہا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہم پر ناراض نہیں۔ ایسے لوگوں کی خوش فہمی دور کرنے کے لیے ارشاد فرمایا ہے کہ ” اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے جرائم کی وجہ سے انہیں دنیا میں پوری، پوری سزا دینا چاہے تو روئے زمین پر کوئی بھی چلنے پھر نے والا باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک وقت معین تک مہلت پر مہلت دیئے جاتا ہے جب کسی قوم یا فرد کی مہلت پوری ہوجاتی ہے تو وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ اس میں دنیا اور آخرت کے دونوں انجام شامل ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کوہر جگہ اور ہر لمحہ دیکھ رہا ہے۔ ” بَصِیْرً“ کی صفت لا کر ایک دفعہ پھر انتباہ کیا ہے کہ مجرموں کو مہلت دینے کا معنٰی یہ نہیں کہ ” اللہ“ ان کے باطل افکار اور برے کردار سے بے خبر ہے۔ نہیں وہ سب کچھ دیکھتا ہے مگر اپنے طے شدہ فیصلے کے مطابق مہلت دئیے جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کی دنیا میں پکڑ کرتا ہے اور کچھ کو چھوڑ دیتا ہے۔ تاہم آخرت میں مجرموں کو پوری پوری سزا دی جائے گی۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو پوری، پوری طرح سزا دینا چاہے تو زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا باقی نہ رہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو باربار مہلت دیتا ہے۔ 3۔ ہر شخص کی موت کا ایک وقت مقرر ہے۔