أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا ۚ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے جس سے ہم رنگا رنگ [٣٢] کے پھل پیدا کرتے ہیں۔ اور پہاڑوں میں بھی مختلف رنگوں کی سفید سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔
فہم القرآن: (آیت27سے28) ربط کلام : توحید کا انکار کرنے اور حق بات کوٹھکرانے والوں کو غوروفکر کی دعوت۔ کیا توحید کا انکار اور حق بات کو ٹھکرانے والے اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح آسمان سے بارش برساتا ہے پھر اس کے ذریعے مختلف قسم کے پھل پیدا کرتا ہے جن کے رنگ آپس میں نہیں ملتے۔ اسی ذات نے پہاڑ پیدا کیے جن میں سفید، سرخ اور نہایت ہی کالے رنگ کے پہاڑ ہوتے ہیں۔ اسی ذات نے انسانوں، جانوروں اور چوپاؤں کے مختلف رنگ اور جسم بنائے جو اس کی قدرت کا پتہ دیتے ہیں۔ لوگوں میں وہی لوگ اپنے رب سے زیادہ ڈرتے ہیں جوصاحب علم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام پر غالب اور بخشنے والاہے۔ سورۃ الرّعدکی آیت 3، 4 میں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر پھل کے جوڑے پیدا کیے اور زمین کو مختلف قطعات میں تقسیم فرمایا ہے جو اپنے مزاج کے مطابق مختلف قسم کے پھل پیدا کرتی ہے۔ حالانکہ ان کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے لیکن انگور اور کھجور رنگ اور ذائقہ کے اعتبار سے ایک دوسرے سے کسی قدر مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح پہاڑ ہیں جو مختلف رنگ لیے ہوئے ہیں۔ بعض پتھر قیمت کے اعتبار سے اس قدربیش بہا ہیں کہ غریب آدمی ان کے حصول کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ انسانوں، جانوروں اور چوپایوں کے رنگ اور مزاج کی طرف توجہ کریں تو انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ ایک ہی ماں باپ کی اولاد شکل وصورت، عادات اور خصائل کے اعتبار سے آپس میں مختلف ہوتے ہیں یہی صورت حال چوپایوں اور جانوروں میں پائی جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عظیم مظاہر ہیں جن کا ادراک وہی لوگ کرپاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حقیقی علم سے سرفراز فرمایا ہو۔ حقیقی علم سے مراد وہ معرفت ہے جس کے سبب انسان اپنے رب کو پہچانتا ہے اور اس کی نافرمانی سے بچتا ہے۔ ایسے شخص سے بتقاضأبشریت کوتاہی سرزد ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمانے والاہے۔ ان آیات میں لوگوں کے مزاج کی نشاندہی کی گئی ہے بارش اور نباتات کا ذکر فرما کر ثابت کیا ہے کہ بارش کا پانی تو ایک ہی ہوتا مگر اس کے ذریعے اگنے والی نباتات مختلف ہوتی ہیں۔ یہی معاملہ ہدایت کا ہے ہدایت تو ایک ہے مگر اس کے رد عمل مختلف ہوتے ہیں کچھ لوگ اس سے صراط مستقیم پاتے ہیں اور کچھ مزید گمراہ ہوجاتے ہیں۔ اس بات کو مزید سمجھنے کے لیے پہاڑوں پر غور فرمائیں کچھ سخت ہوتے اور کچھ نرم کچھ کالے ہوتے اور کچھ سفید جس طرح پہاڑوں کے رنگ مختلف اور ان میں نرم اور سخت ہوتے ہیں اسی طرح ہدایت کے مقابلے میں لوگوں کے مزاج اور ردّعمل مختلف ہوتے ہیں۔ البتہ جو لوگ حقیقی علم رکھتے ہیں وہ اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔ (عَنْ سُفْیَانَ أَنَّ عُمَرَ قَالَ لِکَعْب مَنْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ ؟ قَالَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ بِمَا یَعْلَمُون قالَ فَمَا أَخْرَجَ الْعِلْمَ مِنْ قُلُوبِ الْعُلَمَاءِ ؟ قَال الطَّمَعُ)[ رواہ الدارمی : باب صِیَانَۃِ الْعِلْمِ] ” حضرت سفیان (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت کعب احبار (رض) سے استفسار کیا کہ حقیقی عالم کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا وہ لوگ جو اپنے علم کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے عرض کی کہ کون سی چیز علماء کے دلوں سے علم کو نکال دے گی۔ کعب (رض) نے جواب دیا لالچ۔“ تفسیر بالقرآن: حقیقی علم کا تقاضا اور اس کے فضائل : 1۔ اس بات کا علم حاصل کریں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ (محمد :19) 2۔ کیا علم والا اور علم نہ رکھنے والا برابر ہوسکتے ہیں۔ (الزمر :9) 3۔ اللہ تعالیٰ علم کی بنیاد پر لوگوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔ (المجادلۃ:11)