وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ
نہ تو نابینا اور بینا برابر ہوسکتے ہیں،
فہم القرآن: (آیت19سے21) ربط کلام : عقیدہ توحید اور دین سے انحراف کرنے والا در حقیقت اندھا ہوتا ہے۔ اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بصیرت اور بصارت اس لیے عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب کو پہنچانے اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرے۔ جو انسان اپنے رب کوفراموش کردیتا ہے در حقیقت وہ اندھا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور ضمیر کی آواز فراموش کرکے دل کی روشنی کھو بیٹھتا ہے۔ ضمیر کی روشنی اور کائنات کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے خالق، مالک اور رازق کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کرے۔ پہلی بات کا نام عقیدہ توحید اور دوسری بات کا نام دین ہے۔ جو اس پر عمل کرتا ہے وہ بینا ہے اور جس نے اس حقیقت کو فراموش کردیا وہ اندھا ہے بینا نہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نور کی بجائے اپنے توہمات اور معاشرے کی رسومات کی تاریکی میں زندگی بسر کرتا ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں یہ استفسار ہوا ہے کہ بتاؤ اندھا اور بینا، اندھیرے اور روشنی، چھاؤں اور دھوپ برابرہوسکتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ یہ برابر نہیں ہوسکتے۔ جب برابر نہیں ہو سکتے تو آدمی کو اندھے پن کی بجائے بصیرت کیساتھ، اندھیروں سے نکل کر روشنی میں چلنا چاہیے اور اسے دھوپ کی بجائے سائے کو ترجیح دینا چاہیے۔ یہی عقل سلیم کا تقاضا ہے اس کا ہر شخص کو خیال اور احترام کرنا چاہیے تاکہ دنیا میں در در کی ٹھوکروں سے بچ جائے اور آخرت میں اپنے رب کی بارگاہ میں سروخرو ہوجائے۔ یہاں اندھا پن، اندھیرے اور دھوپ سے پہلی مراد شرک ہے اور ” التوحید“ کو بصیرت، النور اور ٹھنڈا سایہ قرار دیا گیا ہے جس سے انسان کودنیا میں سکون، روشنی اور بصیرت حاصل ہوتی ہے اور موت کے بعد لمحہ بہ لمحہ اسے اپنے رب کی دست گیری اور نور میسّر ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: التوحید اور شرک کا موازنہ : 1۔ توحید سب سے بڑی سچائی ہے۔ (المائدۃ: 119، النساء : 87، 122) 2۔ شرک سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ (ھود :18) 3۔ توحید سب سے بڑی گواہی ہے۔ (آل عمران : 18، الانعام : 19، الروم :30) 4۔ توحید عدل ہے۔ (آل عمران :18) 5۔ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ (لقمان :13) 6۔ توحید دانائی ہے۔ (بنی اسرائیل :39) 7۔ شرک بیوقوفی ہے۔ (الجن :4)