وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
اللہ نے تمہیں مٹی سے، پھر نطفہ سے پیدا کیا ہے پھر تمہیں جوڑے جوڑے [١٧] بنایا۔ جو بھی مادہ حاملہ ہوتی یا بچہ جنتی ہے تو اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے۔ اور کوئی بڑی عمر والا جو عمر دیا جائے یا اس کی عمر کم کی جائے تو یہ سب کچھ کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لئے یہ بات بالکل آسان ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : مرنے کے بعد قیامت کے دن جی اٹھنے کی دوسری دلیل۔ اس آیت سے دو آیات پہلے ” بعث بعد الموت“ کو بارش اور مردہ زمین سے تشبیہ دی گئی ہے یہاں انسان کی مرحلہ وارتخلیق کے حوالہ سے انسان کو دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے۔ مرنے کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرنے والو ! ذرا اپنی تخلیق پر غور کرو کہ جس ” اللہ“ نے تمہیں پیدا کیا ہے وہی تمہاری موت کے بعد تمہیں اٹھائے گا اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفے کو تمہاری تخلیق کا ذریعہ بنایا، پھر تمہارے درمیان میاں بیوی کا ناطہ جوڑا۔ کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے۔ کسی کو زیادہ یا تھوڑی عمر ملنا بھی کسی کے اختیار میں نہیں۔ عمر میں کمی، بیشی کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور سب کچھ اس کے ہاں لوح محفوظ میں تحریر ہے۔ یہ تمام معاملات اور اختیارات اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جنہیں بروئے کا لانا اللہ تعالیٰ کے لیے نہایت ہی آسان ہے۔ اس آیت مبارکہ میں سات کاموں کا ذکر کیا گیا ہے جن کی تفصیلات قرآن مجید کے کئی مقامات پر بیان ہوئی ہیں۔1 ۔اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر مٹی کے جوہر سے انسان کی تخلیق کا سلسلہ شروع کیا۔2 ۔ہر انسان جوہرِحیات یعنی نطفے سے تخلیق پاتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے لیے میاں بیوی کا رشتہ قائم فرمایا۔4 ۔اللہ تعالیٰ حاملہ کے حمل سے پوری طرح واقف ہوتا ہے۔5 ۔کسی کو زیادہ یا تھوڑی عمر دینا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ 6 ۔اللہ تعالیٰ نے ہر بات لوح محفوظ پر درج کر رکھی ہے۔ 7 ۔اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی کام کرنا مشکل نہیں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) وَرَفَعَ الْحَدِیثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُولُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَاد اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثَی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہِ )[ رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اسی طرح سب کچھ انسان کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔“ مرفوع حدیث کی تعریف: وہ امور جو رسول اللہ( ﷺ) سے منقول اور مروی ہوں ان کو مرفوع کہا جاتا ہے اور جو صحابہ کرام سے منقول ہوں ان کا نام حدیث موقوف رکھا گیا اور جو تابعین سے منقول ہوں ان کا نام حدیث مقطوع رکھا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن: انسان کی تخلیق کے مراحل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران :59) 2۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون :12) 3۔ اللہ نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الحجر :27) 4۔ حوا کو آدم سے پیدا کیا۔ (النساء :1) 5۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ (النحل :4) 6۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر :2) 7۔ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے۔ (النساء :1) 8۔ اللہ نے انسانوں میں سے ہی ان کی بیویاں بنائیں اور ان سے بچے پیدا فرمائے۔ (النحل :72) 9۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر :11) 10۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تجھے آدمی بنایا۔ (الکھف :37) 11۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر انسان بنایا۔ (الحج :5)