يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ
لوگو! اللہ کا وعدہ سچا ہے لہٰذا تمہیں دنیا کی زندگی دھوکہ [٨] میں نہ ڈال دے اور نہ ہی اللہ کے بارے میں وہ دھوکہ باز [٩] (شیطان) تمہیں دھوکہ دینے پائے۔
فہم القرآن: (آیت5سے6) ربط کلام : سب نے ” اللہ“ کی طرف لوٹ کر جانا ہے یہ ایک اعلان ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں کے ساتھ وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہوگا۔ ہر کسی نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ اس لیے سمجھایا گیا ہے کہ لوگو! اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا اور پکا ہے کہ بالآخر تمہیں اپنے اعمال کے ساتھ میرے حضور پیش ہونا ہے۔ لہٰذا دنیا کے دھندوں اور مفادات میں پھنس کر اپنے رب کے وعدے کو بھول نہ بیٹھنا اور نہ ہی اپنے رب کے بارے میں شیطان کے فریب میں آنا۔ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اسے دشمن ہی سمجھنا اور اس سے بچتے رہنا وہ اپنے پیچھے چلنے والوں کو جہنم کی طرف ہی بلاتا اور دھکیلتا ہے۔ دوسرے مقام پر شیطان کی شیطنت سے بچانے کے لیے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اے آدم کی اولاد! شیطان تمہیں اس طرح نہ پھسلا دے جس طرح تمہارے ماں، باپ آدم اور حوا ( علیہ السلام) کو پھسلا کر جنت سے نکلوا دیا تھا۔ جنت میں انکا لباس اتر گیا اور وہ جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنی شرمگاہوں کو چھپاتے رہے۔ خبر دار ! شیطان اور اس کے چیلے تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ (الاعراف : ٢٨) (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) کَانَ مَعَ إِحْدَی نِسَائِہِ فَمَرَّ بِہِ رَجُلٌ فَدَعَاہُ فَجَاءَ فَقَالَ یَا فُلاَنُ ہَذِہِ زَوْجَتِی فُلاَنَۃُ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ مَنْ کُنْتُ أَظُنُّ بِہِ فَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّ بِکَ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِی مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ)[ رواہ مسلم : باب بَیَانِ أَنَّہُ یُسْتَحَبُّ لِمَنْ رُئِیَ خَالِیًا بامْرَأَۃٍ وَکَانَتْ زَوْجَۃً أَوْ مَحْرَمًا لَہُ أَنْ یَقُولَ ہَذِہِ فُلاَنَۃُلِیَدْفَعَ ظَنَّ السَّوْءِ بِہِ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) اپنی بیویوں میں سے کسی کے ساتھ کھڑے تھے وہاں سے ایک آدمی کا گذر ہوا آپ نے اسے بلا کر فرمایا اے فلاں یہ میری فلاں بیوی ہے۔ اس نے عرض کی آپ کے متعلق کون ایسا گمان کرسکتا ہے ؟ نہ ہی میں نے ایسا سوچاہے۔ آپ نے فرمایا شیطان خون کی گردش کی طرح آدمی پر اثر انداز ہوتا ہے۔“ شیطان سے بچنے کا حکم اور دعا : ” حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں دو آدمیوں نے نبی اکرم (ﷺ) کی موجودگی میں آپس میں گالی گلوچ کی اور ہم آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں میں سے ایک شدید غصے میں تھا اور دوسرے کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ تھا۔ سرکار دو عالم (ﷺ) نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں اگر وہ اسے پڑھ لے تو اس سے اس کا غصہ جاتا رہے۔ وہ پڑھے :أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ ” میں شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔“ صحابہ کرام (رض) نے اس شخص سے کہا کیا تم نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان نہیں سنتے ہو ؟ اس شخص نے کہا میں پاگل تو نہیں ہوں۔ (اس کا یہ مقصد ہے کہ میں نے آپ کا فرمان سن لیا ہے اور اسے پڑھتا ہوں) “ [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے کہ قیامت برپاہو کر رہے گی۔ 2۔ دنیا کے مال و اسباب پر دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں شیطان کے مغالطوں سے بچنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: دنیا کی حقیقت : 1۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔ (الرّعد :26) 2۔ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں نہایت مختصر ہے۔ (التّوبۃ:38) 3۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت متقین کے لیے بہتر ہے۔ (النّساء :77) 4۔ یقیناً دنیا کی زندگی عارضی فائدہ ہے اور آخرت کا گھر ہی اصل رہنے کی جگہ ہے۔ (المؤمن :43) 5۔ دنیا کا فائدہ قلیل ہے۔ (النساء :77) 6۔ اللہ کی آیات کے مقابلے میں پوری دنیا حقیر ہے۔ (البقرۃ:174)