وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
(اے نبی!) اگر ان لوگوں نے آپکو جھٹلایا [٧] ہے تو آپ سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا جاچکا ہے اور سب کام لوٹائے تو اللہ ہی کی طرف جائیں گے۔
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی توحید کی وجہ سے ہی لوگوں نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور توحید کی وجہ سے ہی مشرکین مکہ نے آپ (ﷺ) کو جھوٹا ہونے کا الزام دیا۔ اعلان توحید سے پہلے اہل مکہ رسول کریم (ﷺ) کو ” الصّادق“ اور ” الامین“ القاب کے ساتھ مخاطب کیا کرتے تھے۔ لیکن جونہی آپ (ﷺ) نے توحید کی دعوت کا آغاز فرمایا تو وہ لوگ نہ صرف آپ کے مخالف ہوئے بلکہ انہوں نے آپ کو جھوٹا قرار دیا۔ جس پر آپ کا رنجیدہ ہونا فطری بات تھی۔ حقیقت بتلانے اور آپ کو تسلی دینے کے لیے ارشاد ہواکہ آپ کو جھٹلانا کوئی انوکھی بات نہیں۔ آپ سے پہلے انبیاء کو بھی جھٹلایا گیا لہٰذا گھبرانے اور افسردہ خاطرہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ہر کسی نے لوٹ کر اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ ان الفاظ میں آخرت کا عقیدہ سمجھاتے ہوئے ایک انتباہ بھی کیا گیا ہے کہ دنیا میں جو چاہو کرلو بالآخر تم نے ہمارے حضور حاضر ہونا ہے۔ سورۃ الانعام آیت 33میں آپ (ﷺ) کو اس طرح تسلی دی گئی کہ ہم جانتے ہیں کہ ان کی ہرزہ سرائی آپ کو پریشان کرتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ظالم آپ کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ سورۃ الانعام آیت 34میں آپ (ﷺ) کو یہ بتلا کر تسلی دی گئی کہ آپ سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا گیا ہے لیکن انہوں نے اس تکذیب پر صبر کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آپہنچی۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! آپ کے رب کے ارشادات تبدیل نہیں ہوا کرتے یقیناً آپ کے پاس پہلے انبیاء (علیہ السلام) کے حالات پہنچ چکے ہیں۔ (عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ إِنِّی لَقَائِمٌ بِسُوْقِ الْمَجَازِ إِذْ اأقْبَلَ رَجُلٌ عَلَیْہِ جُبَّۃٌ لَہٗ وَہُوَ یَقُوْلُ یٰاَ یُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا، وَرَجُلٌ یَتْبَعُہٗ یَرْمِیْہِ بالْحِجَارَۃِ یَقُوْلُ یٰاَ یُّہَا النَّاسُ إِنَّہٗ کَذَّابٌ فَلَا تُصَدِّقُوْہٗ، فَقُلْتُ مَنْ ہٰذَا ؟ قَالَ ہٰذَا غُلَامٌ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ الَّذِیْ یَزْعَمُ اَنَّہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ، قَالَ فَقُلْتُ مَنْ ہٰذَا الَّذِیْ یَفْعَلُ بِہٖ ہٰذَا ؟ قَالَ ہٰذَا عَمُّہٗ عَبْدُ الْعُزّٰی )[ رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ: باب قدوم طارق بن عبداللہ وأصحابہ علی النبی (ﷺ) وقول المرأۃ التی کانت معہم فی رسول اللہ (ﷺ) ] ” طارق بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ کے مجاز نامی بازار میں کھڑا تھا جب ایک آدمی بازار میں داخل ہوا اور وہ جبّہ پہنے ہوئے تھا۔ وہ کہہ رہا تھا اے لوگو! اس بات کا اقرار کرلو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ فلاح پا جاؤ گے۔ دوسرا آدمی اس کے پیچھے پیچھے اسے پتھر مار رہا تھا اور کہہ رہا تھا لوگو! اس جھوٹے کی بات کو نہ مانوں میں نے پوچھا یہ کون؟ ہے اس نے کہا یہ بنی ہاشم کا ایک فرد ہے جو اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہتا ہے میں نے کہا جو اس کے ساتھ یہ سلوک کر رہا ہے وہ کون ہے ؟ اس نے کہا یہ اس کا چچا عبدالعزیّٰ ہے۔ (ابو لہب) “ مسائل: 1۔ نبی کریم (ﷺ) اور ان سے پہلے انبیاء کو جھٹلایا گیا۔ 2۔ بالآخر ہر کام کا انجام اللہ کے ہاں پیش ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: آپ (ﷺ) اور آپ سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ لوگوں کا سلوک : 1۔ اگر انہوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ سے پہلے بھی کئی رسول جھٹلائے گئے۔ (آل عمران :184) 2۔ آپ کو اگر انہوں نے جھٹلادیا ہے آپ فرما دیں میرے لیے میرے عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے۔ (یونس :41) 3۔ اگر انہوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمہارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام :147) 4۔ اگر انہوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو جھٹلائے گئے ان سے پہلے حضرت نوح اور دوسرے انبیاء۔ (الحج :42) 5۔ جو لوگ جو ہماری آیات کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور ان کی تکذیب کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (البقرۃ:39) 6۔ قوم نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو انہیں ہلاک کردیا گیا۔ (العنکبوت :37) 7۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گذرتے تھے تو وہ ان سے مذاق کرتے۔ (ہود :38) 8۔ یہ لوگ آپ سے مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبۃ:79) 9۔ جب وہ ہماری نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصّٰفٰت :14) 10۔ جب بھی ان کے پاس رسول آیا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے۔ (الحجر :11) 11۔ جب بھی ان کے پاس آپ سے پہلے رسول آئے تو انہوں نے انہیں جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذّاریات :52) 12۔ لوگوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جب بھی رسول آئے تو انہوں نے ان کے ساتھ استہزاء کیا۔ (یٰس :30)